غیرروایتی میدان جنگ

302

 

 

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پچھلے دنوں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکا ء سے خطاب میں کہاتھا کہ ہم ہائبرڈ وار سے نبرد آزما ہیں، لوگوں اور نوجوانوں کو اس پروپیگنڈے سے دور رکھنا ہماری بڑی ذمے داری ہے‘ ہائبرڈ وار مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر لڑی جا رہی ہے‘ قوم بالخصوص نوجوان ہائبرڈ وار میں پروپیگنڈے کے خلاف اپنا کردار ادا کریں، ہائبرڈ جنگ کے مقابلے کے لیے قومی رسپانس کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گزشتہ 2 دہائیوں سے کئی خطرات کا سامنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان گنت قربانیوں کے صلے میں حاصل ہونے والے فوائد سے ہمیں ہر صورت فائدہ اٹھانا چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ہمیں جنرل قمرجاوید باجوہ کے اس خطاب کا حوالہ گزشتہ دنوں قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں وقوع پزیر ہونے والے بدامنی کے بعض پے درپے واقعات کے تناظر میں دینا پڑا ہے جن میں جہاں ایک طرف پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو بعض بے چہرہ دشمنوں کے ہاتھوں شہادتوں کے تازہ جام نوش کرنا پڑے ہیں وہاں دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ جس میں ہمیں بحیثیت مجموعی 70ہزار سے زائد قیمتی جانوں اور ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کے اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑا کے بعد اب ایک ایسی جنگ جسے ففتھ جنریشن یا پھر ہائبرڈ وار کا نام دیا جارہا ہے سے واسطہ درپیش ہے جس کا نشانہ قومیت، زبان اور مسلک کی بنیاد پر ہمارے نوجوان ہیں وہاں ان واقعات کی آڑ میں بعض عناصر پاک فوج اور اس کی قربانیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر جو نفرت انگیز پروپیگنڈا کررہے ہیں اس کو دیکھ کر جنرل باجوہ کی ہائبرڈ وار کی تھیوری پر اعتراضات کی گنجائش کے باوجود یقین کرنے کے سوا اور کوئی آپشن نظر نہیں آتا ہے۔
افسوس اس بات پر ہے کہ پاک فوج کو اگر ایک جانب بھارت سمیت کئی دیگر دشمن قوتوں کی کھلی اور ننگی جارحیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں اندرونی محاذوں پر بھی ان ہی دشمن قوتوں کی سازشوں جن میں بدقسمتی سے انہیں ہماری اندرونی صفوں سے بھی بعض عناصر کی پشت پناہی اور ہمدردی حاصل ہے کا مقابلہ درپیش ہے جب کہ اس صورتحال کا ایک تاریک اور منفی پہلو ہماری سیاسی قوتوں اور ریاست کے تمام قابل ذکر اسٹیک ہولڈرز کا ازخود یہ تصور کر لینا ہے کہ اس صورتحال کی بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمے دار بھی چونکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے لہٰذا ان حالات کے مقابلے کی ذمے داری بھی تنہا افواج پاکستان اور اس کے ذیلی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا سوچنا یا کہنا غلط فہمی یا کم فہمی تو ہوسکتی ہے اس کا حقیقت سے دورکا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دراصل یہی وہ بظاہر باریک لیکن حقیقتاً ایک واضح نظر آنے والا نقطہ ہے جس کو نہ صرف سنجیدگی سے سمجھنے بلکہ بحیثیت قوم تمام ریاستی اداروں کو اس کا ادراک کرنے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس لائحہ عمل کی تیاری کے لیے سب سے پہلے تو تمام مقتدر اداروں کو اس لائحہ عمل کی تیاری کی ضرورت پر وسیع تر قومی مفاد میں متفق ہونا ہوگا، ثانیاً اس روڈ میپ کی تیاری کے عمل میں کسی بھی فریق کو لاگ لپیٹ رکھے بغیر قوم کے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہر ایشو کے تمام پہلوئوں کو کھل کر ایک دوسرے کے سامنے نہ صرف رکھنا ہوگا بلکہ اس پر ایک دوسرے کو دل سے مطمئن بھی کرنا ہوگا۔ مثلاً عام تصور کے مطابق مسلح افواج کاکام اگر محض ملکی سرحدوں کا تحفظ ہے اور بس تو پھر ہمارے سول اداروں خواہ وہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ ہوں اور یا پھر عدلیہ، بیوروکریسی اور براہ راست خدمات فراہم کرنے والے پولیس، تعلیم، صحت، مواصلات اور رفاہ عامہ سے متعلق ادارے ہوں ان سب کو نہ صرف اپنے اندر ملک کے اندرونی مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کا جذبہ اور صلاحیت پیدا کرنا ہوگی بلکہ روزمرہ معمولات کے ساتھ ساتھ غیر معمولی حالات میں بھی اپنے عمل وکردار سے ہر طرح کے حالات سے نبردآزما ہونے میں خود کو اہل ثابت کرنا ہوگا۔
ہمارے ہاں اس تصور کے پروان چڑھنے یا چڑھائے جانے کہ فوج ہی ہمارے تمام دکھوں کا مداوا ہے اور ہمارے ہاں ماسوائے فوج کے تمام ادارے ناکام، نااہل اور کرپٹ ہیں لہٰذا فوج ہی ایک ایسا واحد ادارہ ہے جس کے پاس نہ صرف ملکی مسائل کو حل کرنے کی گیدڑ سنگھی ہے بلکہ یہ اس کی قومی اور ریاستی ذمے داری بھی ہے حالانکہ یہ سوچ اور نقطہ نظر سو فی صد غلط ہے کیونکہ ہم جب بھی ملک کے اندرونی معاملات بالخصوص سیاست اور بعض ریاستی معاملات میں فوج کی غیر ضروری مداخلت کا رونا روتے ہوئے اپنی مسلح افواج کا موازنہ امریکا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک حتیٰ کی بھارت کی افواج سے کرتے ہیں تو اس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان قوموں نے یہ مقام جہاں کئی صدیوں اور عشروں کی جہد مسلسل سے حاصل کیا ہے وہاں ان ممالک میں دیگر ریاستی اداروں نے اگر ایک طرف اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کا حق ادا کرنے میں کسی بخل، تساہل اور نااہلی سے کام نہیں لیا ہے تو دوسری جانب ان قوموں نے باہمی اعتماد اور ایک واضح دستورالعمل کے ذریعے اپنے اپنے معین دائرہ ہائے کار پر تمام تر نامساعد حالات کے باوجود کاربند رہنے کا جو عملی مظاہرہ کیا ہے یہ اسی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہے کہ آج یہ معاشرے نہ صرف مادی تعمیرو ترقی کی بنیاد پر دنیا کی قیادت کررہے ہیں بلکہ سماجی بہبود اور فاہ عامہ کے لحاظ سے بھی دنیا بھر کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں لہٰذا ہم بھی اگر اپنا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ریاستی اداروں پر اعتماد کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔