اپنی فوج کو اعتماد دیجیے

248

 

 

افواج پاکستان نے حالیہ چند دنوں میں دو ر رس اثرات کے حامل فیصلے کیے ہیں۔ یہ فیصلے ملکی نظام کی ممکنہ صورت گری اور اس کی نئی منزل کی تلاش کے سفر میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان میں پہلا فیصلہ اعلیٰ فوجی افسران کو سنائی جانے والی موت اور عمر قید کی سزائیں ہیں۔ فوج میں سزا اور جزا کا اپنا نظام موسموں اور مزاجوں سے ماورا ہو کر خود کار انداز میں کام رہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب برسوں چھوٹے فوجی افسر مختلف الزامات میں جیلوں، قلعوں اور سیف ہاوسز میں پڑے رہتے تھے اور میڈیا کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی۔ سوائے ان کے گھر والوں، رشتہ داروں یا محلے اور گائوں والوں کے جو سرگوشیوں میں کسی فوجی افسر کی سزا کے تذکرے کیا کر تے تھے۔ یہ پہلا واقعہ ہے جب فوجی نظام نے ایک میجر جنرل، ایک بریگیڈیئر سطح کے افسروں کو نہ صرف طویل ٹرائل کے بعد سزائیں سنائیں بلکہ ان کا میڈیا کے ذریعے اعلان بھی کیا اور ان کے جرائم کی تفصیل بھی مشتہر کر دی۔ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ فوج اپنے اندر احتساب کے نظام کو عوامی، معتبر اور شفاف بنارہی ہے اور اس معاملے میں ’’قومی مفاد‘‘ کے نقصان اور ’’مورال‘‘ گرنے کے روایتی اور قدامت پسندانہ تصورات کو ترک کر رہی ہے۔ ایسا ہی ایک فیصلہ رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات میں کمی سے تعلق رکھتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن کے دورے کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے سپاہی کا میعار زندگی متاثر نہیں ہوگا اس کا اطلاق صرف فوجی افسران پر ہوگا۔ اس اعلان سے پہلے ہی فوجی اداروں نے اخراجات میں کمی کا طریقہ کار طے کر لیا ہوگا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی تفصیل بھی قوم کے سامنے آئے گی۔
فوج اس ملک کا سب بڑا اور منظم ادارہ ہے اور پاکستانی فوج دنیا کی چھ سات بہترین پیشہ ورانہ اور دفاعی صلاحیت کی حامل افواج میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ صرف کیل کانٹے سے لیس فوج ہی نہیں بلکہ بوقت ضرورت اس کیل کانٹے کا استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتی ہے اور اس کا حوصلہ بھی رکھتی ہے جس کی حالیہ مثال بالاکوٹ حملے کے بعد کی کارروائیاں ہیں جب بھارت کو ایک کے بدلے دو اور تین کی قوت کے ساتھ جواب دیا گیا۔ پاک فوج کی یہ پیشہ ورانہ صلاحیت اور عزم کئی عالمی اور علاقائی قوتوں کی آنکھوں میں خار بن کھٹک رہی ہے اسی لیے وہ فوج کو اندرونی محاذوں پر مصروف رکھنے کے لیے بلوچستان سے قبائلی علاقوں تک مسائل پیدا کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ ملک اس وقت شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ ان مشکلات کی بنیادی وجہ ہماری فوجی اور سویلین حکومتوں اور ان کے ہمنوا منصوبہ سازوں کی نااہلی، ایڈہاک ازم کی سوچ، پرتعیش زندگی، دور بینی کی صلاحیت سے عاری ہونا، سطحی رویے، خودی، خود اعتمادی اور خداعتمادی جیسی نعمتوں سے محرومی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ مہنگائی بڑھتی چلی گئی، توانائی کا بحران پیدا ہوگیا اور صنعت کا پہیہ جام ہو گیا۔ اقربا پرور ی، سفارش اور رشوت نے میرٹ کی جگہ لی اور احتساب کے لفظ کو لغت سے کھرچ دیا گیا اور یوں ہماری قومی معیشت ایک ’’ٹائٹینک‘‘ کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔ گزرتے دن کے ساتھ یہ ٹائٹینک قرضوں کے بوجھ سے لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا سوئے منزل رواں رہا اور اب یہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں عالمی طاقتوں کی سازشوں اور ہماری ناقص پالیسیوں کا بنایا ہوا ’’آئس برگ‘‘ برف کا پہاڑ سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ اب قومی معیشت کے اس ٹائٹینک کے پاس دو راستے ہیں، سمت تبدیل کریں یا اس برف کے پہاڑ سے جا ٹکرائیں اور دوسری صورت میں انجام بہت خوفناک ہو سکتا ہے۔ ٹائٹینک اور آئس برگ کے درمیان فاصلہ اب اس قدر کم رہ گیا ہے کہ رخ موڑنا اور سمت تبدیل کرنا آسان کام نہیں رہا اس کے لیے باقاعدہ سرجری کی ضرورت ہے۔ جس کا پہلا تقاضا قومی خزانے کا بڑا حصہ چاٹ جانے والوں کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنا ہے۔
خدا جانے وہ کس دیس اور بستی کے عوام ہیں جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ہمارے ملک ومعاشرے میں تو عام آدمی پیٹ پر پتھر باندھ کراور مقروض ہی پیدا ہوتا ہے۔ عام آدمی ہر وقت ایثار وقربانی کی تصویر بنا حالات کی قربان گاہ کی چوکھٹ پر کھڑا اپنی باری کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ حکومت ٹیکس لگائے، مہنگائی کرے، تلخ وترش فیصلہ کرے عام آدمی سرتسلیم خم کیے رہتا ہے۔ اس کے برعکس بااثر اہل ثروت اور طبقہ اشرافیہ ایک الگ عافیت کے ایک جزیرے اور عشرت کے ایک الگ ہی سیارے میں زندہ رہتا ہے۔ جہاں نہ ٹیکسوں کے اثرات پہنچتے ہیں نہ مہنگائی کے ذرات کا گزر ہوتا ہے۔ ملک کے معاشی حالات خرابی کے جس مقام پر پہنچ چکے ہیں وہاں مقتدر، بااثر اور معتبر طبقات کی قربانی دیے بغیر اصلاح کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ فوج نے پہل کر کے ایک مثال قائم کردی ہے۔ اس ملک میں غیر ملکی این جی اوز کا پروردہ ایک طبقہ ہمیشہ فوجی بجٹ پر معترض رہا ہے۔ فوجی اخراجات کو موضوع بحث بنانا اس طبقے کا مشغلہ یا ڈیوٹی کا حصہ رہا ہے مگر انہیں کبھی پاکستان کے پڑوس میں فوجی اخراجات کی گنگا جمنا دکھائی نہیں دی۔ قومیں اور ملک جدید دور میں تنہائی کے جزیروں میں مقید نہیں رہ سکتے۔ گردوبیش کے حالات اور واقعات نہ چاہتے ہوئے انہیں متاثر کرتے ہیں اور فطری طور پر ان کے طرز زندگی پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آمادہ فساد ہمسائے بھارت کی جنگی تیاریوں، فتنہ پروری، مسائل کے حل سے فرار اور نظریں چرانے کی روش نے پاکستان کو دفاعی صلاحیتوں میں مسلسل اضافے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل کیا ہے۔ اس کے باجود فوج اپنے اخراجات میں کمی کا فیصلہ کررہی ہے تو یہ ایک اچھا آغاز ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے فوج کے اس فیصلے کو سراہنے میں لمحوں میں تاخیر نہیں کی۔ سول اور ملٹری قیادت کے ایک صفحے پر ہونے اور رہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بظاہر مشکل اور تلخ فیصلے بھی خوش دلی سے اور خوش گوار ماحول میں ہوجاتے ہیں۔ کھچائو، تنائو، بداعتمادی کے ماحول میں اچھا فیصلہ بھی برے انجام اور نتائج کا باعث بنتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کا پہلا تقاضا ہوتا ہے۔ ایک گھر میں پہلے ہی کھٹ پھٹ چل رہی ہو وہاں نیک کام بھی اچھے نتائج نہیں لاتا۔ ثابت یہ ہورہا ہے کہ فوج ملکی مفاد پر اپنے طبقاتی اور ادارہ جاتی مفادکو قربان کرنے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہے۔ اگر سیاست دان کارکردگی کا اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کریں اور پاکستان کے قومی سلامتی اور دفاعی مسائل کو اوونر شپ دینے کو اپنی عادت بنا تے ہوئے عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ’’ہمیں ہماری فوج سے بچائو‘‘ کے انداز میں مددکی مہمات چلانے سے گریز کریں تو کچھ بعید نہیں کہ فوج ایک دن ملک کی داخلی سیاست اور اس کی صورت گری کے کام سے ہمیشہ کے الگ ہوجائے۔ بقول اقبالؒ۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں، راہ دکھلائیں کسے راہروِ منزل ہی نہیں۔