قبائلی اضلاع، صو بائی انتخابات کا التواء

177

میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والی خبروں جن کی تصدیق صوبائی حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کے علاوہ الیکش کمیشن کے ذرائع بھی کر چکے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھا ہے جس میں سیکورٹی خدشات کے باعث قبائلی اضلاع میں دو جولائی کو ہونے والے انتخابات 20 دنوں تک ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ حکومت قبائلی علاقوں میں اصلاحات اور ان علاقوں کو صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومت میں حصہ دینے میں کتنی مخلص اور سنجیدہ ہے۔ محکمہ داخلہ و قبائلی امور خیبر پختون خوا کی طرف سے تین جون کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع میں انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے خطرات موجود ہیں اور سرحد پار افغانستان سے بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو رد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ایسی صورتحال میں ضم شدہ اضلاع میں پرامن انتخابات ممکن نہیں ہیں۔ اس خط میں انتخابات ملتوی کرانے کی جو پانچ وجوہ بیان کی گئیں ہیں ان میں سرحد پار سے دہشت گردی کے خطرات، سیاسی رہنماؤں کا ممکنہ طور پر حملوں میں نشانہ بنایا جانا، شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ، ضم شدہ اضلاع کی لیوی فورس کا غیر تربیت یافتہ ہونا اور ان کی کمانڈ ڈپٹی کمشنرز سے ضلعی پولیس افسروں کو دینے کے عمل کے ساتھ ساتھ انضمام کے عمل میں پیچیدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جب ضم شدہ اضلاع میں انتخابات کے انعقاد کی تمام تر تیاریاں نہ صرف مکمل کر لی گئی ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواروں کو ٹکٹ بھی جاری کردیے گئے ہیں بلکہ خیبر پختون خوا حکومت نے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے متعلقہ محکموں اور سیکورٹی اداروں کو تیاری کے احکامات جاری کر تے ہوئے پلان ترتیب دینے کی ہدایت بھی کی ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختون خوا کی جانب سے پولیس سمیت سیکورٹی اداروں، متعلقہ محکموں، ہزارہ و مردان ڈویژن کے کمشنرز کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ضلعی اور ڈویژن کی سطح پر تمام امیدواروں اور سیاسی قائدین کو لاحق سیکورٹی خطرات کی نشاندہی کے لیے کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی کے قیام اور اجلاس منعقد کیے جائیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اور سیاسی قائدین کو مناسب سیکورٹی فراہم کی جائے۔ ضلعی سطح پر پولنگ اسٹیشن کی تفصیلات اور وہاں سامنے آنے والے ممکنہ مسائل کی نشاندہی کر کے انہیں حل کرنے کے لیے سفارشات مرتب کی جائیں۔ عام انتخابات کے لیے خریدے گئے سی سی ٹی وی کیمرے تمام حساس پولنگ اسٹیشنوں پر نصب کیے جائیں، ضلعی الیکشن سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے۔ انتخابات کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرتے ہوئے اہلکاروں کی تعیناتی کا پلان ترتیب دیاجائے جبکہ تمام اضلاع میں سامنے آنے والے مسائل کی نشاندہی کی جائے۔
دوسری جانب صوبائی محکمہ داخلہ کی طرف سے جو خط لکھا گیا ہے اس میں سیکورٹی خدشات کو انتخابات کے التواء کی بڑی وجہ قرار دیاگیا ہے حالانکہ زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں کیونکہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات جن بدترین حالات میں ہوئے تھے ان کومد نظر رکھتے ہوئے موجود حالات سو درجے بہتر معلوم ہوتے ہیں اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ بیس دنوں کے بعد وہاں حالات یک دم بہتر ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے سوا باقی کسی قبائلی ضلع میں ایسے حالات نہیں ہیں کہ وہاں الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز بن سکے لیکن اس کے باوجود التواء کی درخواست تمام اضلاع کے لیے دی گئی ہے جس کے بارے میں عمومی تاثر کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ حکمران تحریک انصاف ان انتخابات میں عبرتناک شکست اور اپوزیشن کی متوقع کامیابی کے خوف سے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہی ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 25ویں آئینی ترمیم کے بعد ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات دو جولائی کو منعقد کرنے کا اعلان کررکھا ہے جس کے لیے ابتدائی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور اکثر حلقوں میں امیدواران نے نہ صرف جوش وخروش سے اپنی اپنی انتخابی مہمات شروع کردی ہیں بلکہ باجوڑ سے لیکر جنوبی وزیرستان تک اکثر امیدواران نے الیکشن ملتوی کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے انتخابات مقررہ تاریخ پر کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی طرف سے ضم شدہ اضلاع کے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے ایک آئینی ترمیمی بل کی قومی اسمبلی سے اتفاق رائے سے منظور ی کے بعد مزید کارروائی کے لیے ایوان بالا بھیجا جاچکا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل ایوان بالا سے منظور ہو جاتا ہے تو اس صورت میں ضم شدہ اضلاع میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں گی جس سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ بل چونکہ ایوان بالا میں ایجنڈے پر نہیں آیا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن موجودہ سولہ حلقوں پر ہی طے شدہ شیڈول کے مطابق 2جولائی کو الیکشن کرانے کا پابند ہے لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے امن وامان کوجواز بناکر ان انتخابات کے التواء کی جو درخواست سامنے آئی ہے اس نے ایک بار پھر قبائلی اضلاع کے انضمام کے ساتھ ساتھ یہاں تاریخ میں پہلی دفعہ ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو شکوک وشبہات کا شکار بنا دیا ہے۔