حدیث ِ دل

242

میں 19سال کی عمر میں 1964 میں کراچی آیا، پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اب یہی میرا شہر ہے، تمام شعوری زندگی اسی شہر میں گزری۔ مزاج میں ٹھیرائو ہے، تلوُّن نہیں ہے، دسمبر 1965 میں فیڈرل بی ایریا کی جامع مسجد اقصیٰ سے وابستگی ہوئی اور آج بھی قائم ہے۔ 1973 میں علامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری، علامہ جمیل احمد نعیمی ودیگر اکابر علمائے اہلسنت کی رفاقت میں دارالعلوم نعیمیہ قائم کیا اور آج بھی اُسی سے وابستہ ہوں۔ اندازِ گفتار بھی بے ہنگم اور بے تکا نہیں ہے، نہ ایسا کرنا میرے بس میں ہے۔ میں اپنی قصیدہ خوانی نہیں کر رہا، بلکہ ایک حقیقت بتا رہا ہوں، نماز بھی ٹھیرائو کے ساتھ پڑھتا اور پڑھاتا ہوں۔
میں نے 1961ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول اوگی سے میٹرک کیا، اُس دور میں وہاں آج جیسی سہولتیں نہیں تھیں۔ ہم نے پہاڑی علاقے میں پرائمری سے میٹرک تک پانچ میل روزانہ پیدل چل کر پڑھا، میٹرک کرنے تک بجلی نہیں دیکھی تھی، صرف فزکس کی کتابوں میں اُس کی بابت پڑھتے تھے، مشاہدہ نہیں تھا۔ خاندانی پسِ منظر الحمدللہ علمی ہے، آج بھی ہمارے خاندان میں اعلیٰ تعلیم کا تناسب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قابلِ رشک ہے۔ اسکول کے ساتھ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی، کچھ اسباق اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے عہد کے بہت بڑے عالم دادا جان سے پڑھے، رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ چونکہ اچھی بات کو سیکھنا مزاج میں تھا، اس لیے کراچی میں استاذِ مکرّم علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری مرحوم کی رفاقت میں تلفظ کی اصلاح ہوئی اور اچھے لوگوں کی تحریریں پڑھ کر لکھنے کا سلیقہ پیدا ہوا، اب بھی اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے، غالب نے کہا ہے:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
ضمناً بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم مسلّمہ طور پر ایک انتہائی قابل اور ممتاز اسکالر تھے، وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر تھے، جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہیں وزیرِ مذہبی امور بنایا۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی طرف سے نمائندگی کے سبب مختلف اجلاسوں میں اُن سے واسطہ پڑا، 2001 میں مجھے بتائے اور اعتماد میں لیے بغیر انہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کا چیئرمین بنادیا، اس کا علم مجھے نوٹیفکیشن کے بعد ہوا، اُن کی معیت میں چند علماء کے ہمراہ قزاقستان کا تاریخی دورہ بھی کرنے کا موقع ملا، اس دورے میں چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرُمچی میں ایک دن قیام کا موقع ملا، وہاں کا ایک سرکاری مذہبی تعلیمی ادارہ بھی دیکھا، علامہ اقبال نے کہا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
کاشغر کا علاقہ یہی ہے، یہاں ترکی النسل ایغور مسلمان رہتے ہیں، مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو نمازیوں کے لیے پگڑیاں، تسبیحیں اور ٹوپیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ ترکی میں تو مصطفی کمال اتاترک نے ازراہِ عِناد ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن میں ڈھال دیا، حروف والفاظ کی ہیئت اور تلفظ ایسا رکھا کہ عربی، فارسی وانگریزی دان کے لیے صحیح تلفظ مشکل ہوگیا، اصل مقصد اسلامی علامات اور ماضی سے رشتہ توڑنا تھا، محمد اور احمد کا تلفظ بالترتیب مَہْمَتْ اور اَہْمَتْ ہوگیا، وغیرہ۔ اُرمچی میں بازار میں چکر لگاتے ہوئے دکانوں کے بورڈ دیکھے، وہ عربی فارسی رسم الخط میں تھے اور بآسانی سمجھ میں آرہے تھے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ اگر آج ترکی کو واپس اپنے اصل رسم الخط کی طرف لایا جائے تو اُن کے اور ہمارے درمیان تفاہم میں دشواری نہیں ہوگی اور ہمیں ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنا نہایت آسان ہوجائے گا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جدید انگلش میڈیم اسکولوں کی وجہ سے ہماری نئی نسل اُردو سے دور ہوتی جارہی ہے، اگر یہی چلن رہا تو بیس پچیس سال بعد اردو اخبارات اور کتابیں پڑھنا اور سمجھنا نئی نسل کے لیے دشوار ہوجائے گا۔ اسی لیے میں نے نیشنل ٹاسک فورس اور نیشنل کریکولم کونسل کے اجلاسوں میں کہا تھا کہ اَشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں ’’پاکستانی ساختہ‘‘ نسل تیار نہیں ہورہی، یہ چوں چوں کا مُرَبَّہ اور اس محاورے کا مصداق ہے: ’’کوا چلاہَنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔
6ستمبر 1965ء کو جب ریڈیو پاکستان سے اعلان ہوا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے، تو ایک منٹ کے توقُّف کے بغیر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں تعلیم معطل کر کے آیتِ کریمہ پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جس میں تمام اساتذہ کرام اور طلبہ شامل تھے، ادارے کے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری نے کہا: ہندوستان نے ہمارے قَلب (لاہور) پر حملہ کیا ہے۔ مسجدوں میں گڑگڑا کر دعائیں مانگی جارہی تھیں، فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی جارہی تھی، لوگ حکومت کے ساتھ تَن مَن دَھن سے تعاون کر رہے تھے، نہ کوئی ہلچل مچی، نہ کہرام بپا ہوا، نہ لوگ کراچی سے بستر بوریا اٹھاکر اپنے علاقوں کو روانہ ہوئے، نہ مہنگائی کا سیلاب آیا، نہ اَشیائے صَرف کی قلت ہوئی، نہ راشن کے لیے لائنیں لگیں، الغرض پورا نظامِ زندگی معمول کے مطابق جاری رہا۔ راتوں کو مکمل بلیک آئوٹ ہوتا اور دن میں زندگی معمول کے مطابق جاری وساری رہتی۔ اُس وقت پاکستانی ایک متحد، مضبوط اور مُستَحکم قوم کا منظر پیش کر رہے تھے، ہر ایک نے اسے اپنے دل وجان پر حملہ محسوس کیا، اُسی موقع پر رئیس امروہوی نے جنگی نغمہ لکھا تھا:
خطّۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
شہریوں کو، غازیوں کو، شہسواروں کو سلام
رات کو سب لوگ ریڈیو سے کان لگا کر بیٹھ جاتے، شکیل احمد مرحوم اتنے جوش وخروش سے خبریں پڑھتے، جیسے وہ دشمن کے مقابل مورچے میں بیٹھ کر گولہ باری کر رہے ہوں۔ اس وقت پوری قوم کا ایک ایک فرد اس جنگ کا حصہ تھا، وطن کے لیے مر مٹنے کو تیار تھا۔ پھر ہم نے 1971ء کی جنگ دیکھی، وہی ملک وقوم، لیکن 1965 والا والہانہ جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔ کراچی ڈاکیارڈ میں ہفتہ بھر آگ کے شعلے اور دھویں کے مرغُولے بلند ہوتے رہے، لیکن قوم میں ایک لا تعلقی سی تھی۔ 16دسمبر 1971کا المیہ قوم نے خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا، کئی لوگوں نے بعض مناظر دیکھ کر اپنے ریڈیو اور ٹی وی سیٹ توڑ دیے، بڑے جلوس اور ریلیاں بھی نہیں نکلیں، ایک بے حسی، پژمردگی اور اضمحلال طاری رہا۔
اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کبھی بھی غیر متنازع نہیں رہے، لیکن اُن کے کریڈٹ پر آج بھی بعض نمایاں کارنامے موجود ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور کی تشکیل جس پر نواب خیر بخش مری کے علاوہ اُس وقت کے تمام ارکانِ اسمبلی کے دستخط ثبت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قوم کو پھرحوصلہ دیا اور ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی شروعات کیں، جسے بعد میں تمام حکومتوں نے آگے بڑھایا اور بالآخر 1998 میں پاکستان چھ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔
نائن الیون کے بعد ایک مرحلہ ایسا آیا کہ فوجیوں کو ہدایت تھی کہ یونیفارم پہن کر کنٹوٹمنٹ سے باہر نہ آئیں۔ پھر 2012 سے 2018 کے درمیان جب آپریشن راہِ نجات، ضربِ عَضب اور ردُّ الفساد شروع ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں ایک بار پھر فوج کی محبت جاگ اٹھی، فوج ملک کے لیے قربانیاں دے رہی تھی اور قوم اس کی قدر دان تھی۔ غلطی کس نے کی، کہاںکی، حکمتِ عملی اور تدبیر وفراست کا فقدان کہاں تھا، قوم ان تفصیلات میں جائے بغیر فوج کی پشت پر کھڑی ہوگئی، یعنی ایک بار پھر وحدت کی تصویر نظر آنے لگی۔ یہ سارا پسِ منظر میں نے اس لیے لکھا ہے کہ گزشتہ عشروں میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا، چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر سب لوگ مجھے دعا کے لیے متوجہ کرتے اور ہم پاکستان کی سا لمیت اور فوج کے حق میں دل وجان سے دعائیں مانگتے۔
میں رمضان مبارک میں اپنی مسجد سے متصل مکان میں آجاتا ہوں، یہاں میں دسمبر 1965 سے 2002 تک رہا، بعد میں اپنے مکان میں منتقل ہوگیا۔ چونکہ رمضان مبارک میں مجھے صبح وشام درس دینا ہوتا ہے، لوگ مسائل کے لیے رجوع کرتے ہیں، اس لیے میں وہاں منتقل ہوجاتا ہوں، یہاں تیسری نسل چل رہی ہے جن کے درمیان میں نے اپنی زندگی کا تقریباً تین چوتھائی حصہ گزارا ہے، ان کے ساتھ ہمیشہ محبت واحترام کا رشتہ قائم رہا اور میں نے اُن میں دین اور اہلِ دین کے لیے احترام پایا، میرا ادارہ اور مسجد فیڈرل بی ایریا میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب ہیں۔ کئی جذباتی دور گزرے، میں اپنے مزاج کے مطابق دین کے حوالے سے حالات کی بابت کلمۂ حق بیان کرتا رہا اور انتہائی جذباتیت کے ماحول میں بھی نوجوانوں سمیت لوگ مجھے برداشت کرتے رہے۔
سو جب میں ملک کے دوسرے حصوں کے لوگوں کو عملی تجربے کی روشنی میں بتاتا ہوںکہ الطاف حسین کا دور اہلِ کراچی کے لیے ایک ابتلا کا دور تھا، بہت سے لوگ جذبات کی رو میں بہہ گئے، اپنے پرائے کی تمیز اٹھ گئی، بہت سے ناگفتہ بہ واقعات ظہور پزیر ہوئے، بے انتہا جانی نقصان ہوا، لسانی عصبیت اپنے جوبن پر تھی، اس کے باوجود بحیثیت ِ مجموعی اہلِ کراچی کو میں نے ہمیشہ دین کے قریب اور اہلِ دین سے محبت کرنے والا پایا۔ لبرل حضرات تحریکِ پاکستان کی جو بھی تعبیریں بیان کریں، ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں، ان میں مشرقی پنجاب کے مہاجرین بھی شامل ہیں، سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ تحریکِ پاکستان اسلام کے نام پر بپا ہوئی تھی، لوگوں نے اسلام کے نام پر ہی اس کی حمایت کی، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان سے کبھی مستفید نہ ہوسکے، اُن کا بھی اہلِ پاکستان پر احسان ہے، سو اہلِ کراچی کی اسلام اور پاکستان کے ساتھ محبت شک وشبہے سے بالاتر ہے، انہیں اسی نظر سے دیکھا جائے۔
میں رمضان میں جوارِ مسجد میں رہنے کی وجہ سے ٹیلی ویژن بالکل نہیں دیکھتا، بس صرف صبح کے اخبارات میں سرسری خبریں دیکھ لیتا ہوں۔ جب میں نے داتا دربار لاہور، کوئٹہ اور گوادر کے واقعات کے بارے میں صبح کے اخبار میں پڑھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ شام کو نہ مسجد میں کسی نے ان کا ذکر کیا، نہ دعا کے لیے کہا۔ یہ بے حسی اور لاتعلقی مجھے گھائل کرگئی کہ آخر دلوں کی یہ کیفیت اور اچانک کایا پلٹ کیسے ہوگئی۔ ہمارے نظام میں کہیں کوئی بے تدبیری تو نہیں ہوگئی، بس یہی سوچ مجھے پریشان کر رہی ہے، سوچا اپنے قارئین کو اس الجھن میں شریک کرلوں۔