صاحبو! ہم تو ہلکان ہوگئے ہیں۔ گرمی کی شدت الامان۔ ہر جان مضطرب، بے چین، بے قرار۔ گرمی کے دن ہیں کہ روز حساب۔ گرمی اور کراچی کا رشتہ اتنا قدیم نہیں ہے۔ کبھی کراچی کا موسم بڑا معتدل ہوتا تھا۔ گرمی کی حدت میں اتنی شدت نہیں ہوتی تھی۔ دوچار دن گرمی اور پھر شام کو سمندر سے ہوائیں۔ درختوں کی شاخوں نے ہلکورے بھرے، پتوں کی سسراہٹ سے نغمے پیدا ہوگئے اور شہر ٹھنڈا۔ اب تو دسیوں بیسیوں دن گزر جاتے ہیں جہنم کراچی کی سمت سانس باہر لیتی محسوس ہوتی ہے۔ صبح سویرے ہی سے ایسا لگتا ہے سورج آگ برسانے پرتل گیا ہے۔ گھر سے باہر نکلیے تو لُو کے تھپیڑے۔ سڑکیں سنسان۔ ٹریفک کم۔ عافیت کا کوئی گوشہ نہ تبسم کی کوئی صحبت۔ ماحول گویا صحرا کی خاک، دھول اور آبلے۔ آدمی دیوانہ نہیں تو علیل دماغ اور سست ضرور نظر آتا ہے۔ بیزاری اور بددلی، دور دور کوئی ایسی صورت نہیں جسے حسن کہیں یا حسین سمجھیں۔ ہر کوئی پسینے سے شرابور، کمُلایا ہوا، غریب شہر کا استعارہ۔
لُو چل رہی ہے محو ہے اپنے میں دوپہر
خاک اڑ رہی ہے اور کھنڈر خیریت سے ہیں
گھر سے باہر نکلے تو سڑک دھوپ میں ایسی جل رہی تھی جیسے زندہ رہنے کے شوق کی چتا چلادی گئی ہو۔ ہوا سے گرمی کی لپٹیں ایسی آرہی تھیں جیسے کہیں قریب ہی دل وجان جل رہے ہوں۔ وہ ٹھیلے والے جو بیچ سڑک ٹھیلا چلاتے تھے، سمٹے سمٹے سڑک کے ورے ورے خود کو گھسیٹ رہے ہیں۔ کدال پھاوڑے سنبھالے مزدور بھی روزی سے زیادہ گرمی سے بچنے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ اس گرمی میں صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں بھنا ہوا کہیںگے۔
کراچی میں ایسی گرمی کب پڑتی تھی۔ انسان جائے بھی تو جائے کہاں۔ ہر سو آگ برس رہی ہے۔ گرمی سے فرصت پانے کے لیے چلیے نہا لیے، گیلے کپڑون سمیت پنکھے کے نیچے بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے میٹھی نیند سوگئے، ٹھنڈے مشروبات سے دل بہلا لیا اور لبوں پر یہ دعا کہ سب زندہ رہیں۔ امیر غریب، ادنیٰ، اعلیٰ وہ ربّ کریم سب پر اپنا کرم ارزاں رکھے۔ لیکن اس عذاب کا کیا کریں جو بجٹ کی صورت ہر سال آن موجود۔ کسی صورت ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ کسی کے بڑھاپے کا خیال کرتا ہے نہ کسی پری وش کی نزاکت طبع کا اور نہ کسی کی جوانی کی لاج کا۔ گرمی سے مفر ممکن ہو تو ہو بجٹ سے مفر نہیں۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں جو تاریک پڑی ہیں اس بجٹ سے تو کیا کسی بھی بجٹ سے ان کی زندگی میں ننھی ننھی شمعیں روشن ہونے اور ٹمٹمانے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ زندگیاں کیسے جگمگائیں گی۔ کوئی ہے جسے اس کا احساس ہے۔
منزل راہرواں دور بھی دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے
کسی کو اس سے کوئی امید نہیں کسی کو اس سے کوئی توقع نہیں۔ اس کی گفتگو میں مٹھاس ہے اور نہ دل کا قرار۔ بجٹ سے سب ہی نفرت کرتے ہیں۔ بجٹ ایسا شاہ زادہ بخت ہے جس کے سر پر کوئی بھی تاج رکھنے کو تیار نہیں۔ کوئی اس کے سکھ میں شریک نہیں کوئی اس کے سوگ میں کام بند کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی اسے کفن دینے کو تیار نہیں۔ کوئی اس کی قبر پر چراغ جلانے کو تیار نہیں۔ کوئی اس کی قبر ہی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب چاہتے ہیں اس متعفن لاش کو کوڑے دان میں پھینک آئیں۔
وہ بھی کیا خوش خبر خوش مزاج لوگ تھے گھر کی ایک ایک چیز کی خبر رکھتے تھے۔ کوئی چیز گم ہوجائے تو ان سے پوچھ لو۔ مزاج دان ایسے کہ سب کی خبر ہوتی تھی۔ بچوں، جوانوں، بوڑھوں، بیماروں، کاروباریوں، مزدوروں، سرمایہ داروں، کارخانہ داروں، چھوٹے دکانداروں، بڑے تاجروں، امپورٹ ایکسپورٹ ہر ایک کی خبر رکھتے، ہر ایک کی ضرورت سے آگاہ ہوتے تھے۔ ہر ایک کی سنتے تھے۔ بجٹ سے ہفتوں پہلے ہر شعبہ حیات کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے ان سے مشاورت طلب کرتے تھے اور پھر اس خوبی سے بجٹ تیار کرتے تھے جیسے کسی نے بال بال موتی پرو دیے ہوں، پژمردہ گالوں پر لالی مل دی ہو۔ کوئی شور، گریہ نہ احتجاج۔
اب بھی دل کرتا ہے بجٹ کو اپنے پاس بلا کر پیار سے بٹھا جایا۔ اس کے بالوں کو اچھے شیمپو سے دھو یا جایا۔ اس کے انگ انگ کو خوشبودار صابن سے مل مل کر دھویا جائے۔ برسوں سے جما اس کا میل کچیل اتارا جایا۔ اس کے بالوں میں کنگھی کی جائے، اسے دلربا کا روپ دیا جائے۔ اس سے پیار کی باتیں کی جائیں۔ اس کے دکھ سنیں جائیں۔ اس سے دل کی بات کی جائے اس کے دل کی بات سنی جائے۔ بڑے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہیں اے میرے دل میرے غمخوار آکہیں اور چلیں، کسی باغیچے میں بیٹھیں۔ میں تیرے مسائل سنوں تو میرے دکھوں کو سمجھ۔ یہ کیا کہ ایک عرصہ ہو گیا تو بھی مغموم ہے میں بھی اداس ہوں۔ تو میرا کہا مان رہا ہے نہ تیرے دیے ہوئے جیب خرچ میں میرا گزار ہورہا ہے۔
مال وزر کے جن انباروں کا تو اپنے گوشواروں میں ذکر کرتا ہے مجھے ان سے کیا لینا ہے۔ وہ گرمئی بازار جو تیرے دم قدم سے آباد ہے میرے کس کام کی۔ تیرے کنبے کے حساب کتاب کی باریکیاں، ان کے رموز، ان کے الجھیڑے، ان کی گراوٹیں، ان کی بلندیاں، ان کی تیزیاں میرے کب سمجھ میں آتی ہیں۔ میں تو جب بازار سے گھر کے لیے آٹا دال ترکاری، گھی، تیل، دودھ خریدتا ہوں تب مجھے پتا چلتا ہے پریوار کے کھانے پینے کے بعد میرے لیے کچھ بچا ہے یا نہیں یا پھر مجھے آج بھی خالی پیٹ ہی سونا ہوگا۔ کبھی تم نے خالی پیٹ کی گھڑ گھڑ سنی ہے۔ یہ بڑی ظالم، بڑی چالا ک ہوتی۔ یہ جب اپنی پر آتی ہے تو تیرے لگائے ہر ٹیکس کا توڑ کرکے اسے کھاتی چلی جاتی ہے اور تیرے حصے میں بھی کچھ نہیں آتا۔
لیکن اے میرے دوست یہ روش ٹھیک نہیں ہے۔ یہ باہم رنجشیں، نفرتیں، عداوتیں، یہ مناسب بات نہیں ہے۔ سب کچھ بگڑتا جارہا ہے۔ ہمارے بچپن کے جو پیڑ تھے اب وہ جل گئے ہیں انہیں کوئی پانی دینے والا نہیں، ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں رہا۔ ہماری بستیوں میں جو مور تھے وہ نہ جانے کہاں کن جنگلوں میں نکل گئے ہیں۔ وہ عمارتیں جو ہمیں سردی گرمی سے بچاتی تھیں نہ جانے کس الائو میں جل گئی ہیں۔ آئو ایک دوسرے کی طرف کھڑکیا ں کھولیں، سر سبز کشادہ فضائوں میں راستے تراشیں، اشکوں کو صاف کرنے والے رومال کو جیب میں رکھ لیں۔ دنیا تمہیں بجٹ کہتی ہے تم آج بھی میرا پیار ہو، آئو میرے گلے سے آکر لگ جائو۔
’’نہیں میرے دوست اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ تم نے آنے میں بہت دیر کردی ہے۔ اب میں اپنی مرضی کا پابند نہیں ہوں۔ یہ ہجر کا موسم ہے۔ اب یہاں آئی ایم ایف کی حکومت ہے۔ اب میں کہیں سمندر پار سے تیار ہوکر آتا ہوں اور تمہاری اسمبلیوں میں سنادیا جاتا ہوں۔ مجھے وہ لوگ مرتب کرتے ہیں جن کے دل دماغ تم سے کوئی نسبت رکھتے ہیں نہ رسمیں اور چاہتیں۔ ان میں اور تم میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں۔ سود کے نام پر ان کا کام تمہارا خون چوسنا ہے اور تمہارا کام خون چوسوانہ۔ درخت کی ہر شاخ پر وہ تمہاری معیشت کی لاش لٹکی دیکھنا چاہتے ہیں ’’hang until death‘‘۔