بجٹ 2019-20 ملکی معیشت کو منجمند، عوام تاجر اور صنعتکاروں کو معاشی قبر میں اتارنے کی تیاری

316

 

 

رپورٹ : قاضی جاوید
بجٹ میں کیا ہے اس کا شاید حکومتی ارکان بھی درست انداز سے جواب نہ دے سکیںلیکن اس باب میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ بجٹ ملکی معیشت کو منجمداورعوام کو معاشی قبر میں اُتارنے کے لیے بنایا گیا ہے حکومت نے مالی سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا۔جس میں سے تقریباً 50 فیصد خسارے کے اس بجٹ میں 11 کھرب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جن سے چینی، کوکنگ آئل، سیگریٹ، گیس اور گاڑیوں سمیت متعدد اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔وفاقی بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیلئے 55 کھرب 55 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف رکھا گیا ہے جس کی ہر سطح پر مذمت اور ہدف کے بارے مایوسی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 25 فیصد یعنی 11 کھرب 20 ارب روپے زیادہ ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ برس کی نسبت بلاواسطہ ٹیکس کی مد میں 3 کھرب 46 ارب روپے اور 7 کھرب 73 ارب روپے بلواسطہ ٹیکس کی مد میں بڑھائے گئے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 20-2019 کے وفاقی بجٹ میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 4 کھرب 77 ارب روپے کے اضافی سیلز ٹیکس، 3 کھرب 63 ارب روپے کے اضافی انکم ٹیکس، 2 کھرب 65 ارب روپے کی اضافی کسٹمز ڈیوٹیاں اور 99 ارب روپے کی اضافی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹیاں عائد کی جائیں گی۔نئے مالی سال کے بجٹ میں گھی، خوردنی تیل ، چینی ، دودھ ، خشک دودھ ، کریم مہنگی کر دی گئی، سیمی پراسیس اور پکے ہوئے چکن، مٹن، بیف، مچھلی پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ گاڑیاں ، سیمنٹ ، ماربل، ایل این جی، سی این جی اور سگریٹ بھی مہنگے کر دیے گئے۔پھلوں کے جوس، سیرپس، اسکوائشز، کولڈ ڈرنکس پر ٹیکس بڑھا نے کی تجویز جبکہ سونا ، چاندی اور ہیروں کی درآمد پر بھی ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔تما م تر ٹیکسوں کی وصولی صر ف صر ف عوام کریں گے
محصولات میں 33فیصد اضافے کا ہدف معاشی شرح نمو کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں۔بجٹ کا بنیادی ڈھانچہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کی عکاسی کرتا ہے بجٹ پر تجزیہ کرتے وقت ہمیں موجودہ سیاسی پس منظر کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ کن مشکل حالات میں بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ صنعت کاروں کا اس بجٹ میں کیا ری ایکشن ہے اور محصولات کیلئے کیا اقدام اُٹھائے جار رہے ہیں کیونکہ آنے والے ہفتوں میں اس سلسلے میں بہت لے دے ہو گی۔ نظر ثانی شدہ 2018-19کے ریونیو ہدف مزید 33%فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔لہذا ریونیو کے اس ہدف کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ تجویز یہ ہے کہ ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ ریونیو پیدا کرنے کیلئے معاشی سرگرمیوں کو عروج پر لیجانا ہو گا۔ اور اس پر ایک سخت ما نیٹرنگ سسٹم لاگو کرنا ہو گا۔ حقائق نامہ میں اس خدشے کا ظہار کیا گیاہے کہ محصولات میں اضافے کے باوجود مالی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کے7.1 فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔جہاں تک محصولات کا تعلق ہے یہ براہ راست ٹیکسز کے ذریعے اکٹھا کیا جائیگا جس سے ایک عام شہری کی ویلفیئر اور معاشی سرگرمیوں پر اثر پڑے گا تاہم اگر معاشی سرگرمیاں زیادہ ہو نگی تو ٹیکس بھی زیادہ سے زیادہ پیدا کیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ حکومت یہ دونوں ہدف کس طرح حاصل کر سکے گی۔ اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ ملک کے اندر بیرونی قرضوں کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے نمٹنے کیلئے ٹیکس میں اضافہ کرنا ضروری تھا اور اس لحاظ سے موجودہ حکومت بھی صحیح ہے کہ یہ مشکلات دوسروں کی پیدا کردہ ہیں۔آئی پی آر کے حقائق نامے کے مطابق بجٹ میں اکانومی کی تعمیر نو کیلئے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اس کے علاوہ پچھلے پانچ سال سے برآمدات ایک جگہ پر کھڑی ہیں اور اب بھی اس کی بہتر ی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اگرچہ اس سال برآمدات میںکچھ اضافہ ہو اہے۔اضافی ٹیکس اور دی گئی مراعات کو واپس لینا اگرچہ ضروری تھا لیکن اس کی وجہ سے صنعتی شعبہ متاثر ہو گا۔موجودہ بجٹ کے ساتھ ایک سالانہ منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے جس میں بڑے پیمانے کی معاشی سرگرمیوں کا فرایم ورک دیا گیا ہے۔ معیشت کی شرح نمو کا ٹارگٹ 2020کا 4فیصد دیا گیا ہے اور کرنٹ اکاوئنٹ خسارے کا ہدف منفی 3فیصد دیا گیا ہے جو کہ مالی سال 2019 کی نسبت بہت کم ہے جبکہ جی ڈی پی گروتھ کا ہدف بھی قابل عمل محسوس ہو تا ہے۔آئی پی آر کے حقائق نامے کے مطابق یہ چیز حوصلہ افزاء ہے کہ آبی وسائل اور پن بجلی سیکٹر کیلئے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے جبکہ ائیر ایجو کیشن کمیشن اور ریلوے کے لیے مختص کی گئی رقم نا کافی معلوم ہوتی ہے۔
پانچ زیرو ریٹیڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز نے ملک کے وسیع تر مفاد ایکسپورٹ سیکٹر کو سہولت دی جانی تھی لیکن ایسا نہیں ہو ۔زیرو ریٹیڈ ایکسپورٹ پر ڈیوٹیز کے نفاذ سے برآمدات30فیصد کم ہو گی ۔ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو ٹیکسٹائل پالیسی پیش کی تھی موجودہ بجٹ اس کے برعکس ہے ۔ ایکسپورٹرز حکومت کے ایس آر او 1125کی منسوخی کی تجویز کو مسترد کرتے ہیںپانچ ایکسپورٹ سیکٹرز کے لئے زیرو ریٹینگ کے خاتمہ کی وجہ سے ایکسپورٹس میں ہر سال 30 فیصد کمی ہوگی5ایکسپورٹ سیکٹرز کے لئے زیرو ریٹینگ کا خاتمہ تباہ کن اثرات لائے گاایکسپورٹرز کی لیکویڈٹیز پھنس جائیں گی، صنعتی پیداوار شدید متاثر ہوگی گارمنٹس کی تیاری سے شپمنٹس تک 4ماہ کا عرصہ لگتا ہے اور سال میں 3ایکسپورٹ سائیکل بنتے ہیں، ایکسپورٹرز کی سالانہ 54 فیصد تک لکویڈیٹی پھنس جائے گی۔ جاوید بلوانیاسطرح ایکسپورٹرز کے ریفنڈز کی ادائیگی کا دورانیہ 8ماہ سے بھی بڑھ جائے گازیرو ریٹیڈاسکیم کا خاتمہ ایکسپورٹ انڈسٹریز کے لئے مسائل اور بربادی کا باعث بنے گاسرمایہ بیرون ۔یہ سب کچھ ،ماضی کے تجربات کی روشنی میں پہلے برآمد کنندگان ایک نہیں 25مئی اور 10جون کی ہنگامی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں ،۔ امن کا یہ بھی کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں 39فعصد کمی سے برآمدات میں جو اضافہ ہو ا ہے وہ سب صفر ہو جائے گااور ملکی سرمایہ بیرون ملک ملک منتقل ہو جائے گا، بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہوگی اور کثیر زرمبادلہ کا نقصان ہوگاآئی ایم ایف کی شرائط پر ایکسپورٹ سیکٹرز کے لئے زیرو ریٹنگ کا خاتمہ ایکسپورٹ انڈسٹری کی تباہی کا اقدام ہے ایکسپورٹرز کے اربوں روپے کے کلیمز پہلے ہی حکومتوں نے تاحال ادا نہیں کئے، نئے ریفنڈز کیسے ادا ہوں گے؟اسمال اور میڈیم ایکسپورٹ انڈسٹریز زیروریٹنگ کے خاتمہ اور سیلز ٹیکس کے نفاذ سے بند ہو جائیں گی بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، ایکسپورٹس میں کمی ہوگی، سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوگا اور وسیع پیمانہ پر انارکی پھیلے گی اور امن و امان کی صورتحال بھی متاثر ہوگی ایکسپورٹرز کے 200بلین روپے سے زائد کے سیلز ٹیکس ریفنڈز، کسٹمز ریبیٹ، ودہولڈنگ ٹیکس، ڈیوٹی ڈرابیک آن لوکل ٹیکسس لیویز اور ڈی ڈی ٹی کے کلیمز کی حکومتی عدم ادائیگی کی وجہ سے ایکسپورٹر ز پہلے ہی شدید مالی دباؤ اور مشکلات کا شکار ہیں، مزید مالی دباو کے متحمل نہیں ہو سکتے پاکستان ایک خودمختار ملک ہے جس کے فیصلے بھی پاکستان نے ہی کرنے ہیںجو ملک اور عوام کے مفاد میں ہونے چاہیئے۔ برآمد کنندگان نے جسارت کو بتایا کہ حکومت کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ اور لاحاصل رہے۔ متعلقہ حکومتی حلقہ اپنی ضد پر قائم ہے اور زیرو ریٹیڈ سیکٹر کے مطالبے کو ماننے پر سنجید ہ نہیں ہے انھوں نے بتایا کہ زیرو ریٹیڈ ایکسپورٹ سیکٹر نے حکومت کی نئی ٹیکس ریجیم جس میں زیرو ریٹنگ کو ختم کرنے کو تجویز زیر غور ہے کو ماننے سے ایکسپورٹرز کے 200بلین روپے سے زائد کے سیلز ٹیکس ریفنڈز، کسٹمز ریبیٹ، ودہولڈنگ ٹیکس، ڈیوٹی ڈرابیک آن لوکل ٹیکسس لیویز اور ڈی ڈی ٹی کے کلیمز کی حکومتی عدم ادائیگی کی وجہ سے ایکسپورٹر ز پہلے ہی شدید مالی دبائو اور مشکلات کا شکار ہیں۔لہٰذا زیرو ریٹیڈ کے خاتمہ سے ایکسپورٹ کی گروتھ متاثر ہونے کے باعث ایکسپورٹ کم ہو جائے گی۔ ایکسپورٹرز کے لئے فائنل ٹیکس ریجیم کے خاتمہ کی تجویز پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز، پاکستان اپیرئل فورم ، پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن،پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈایکسپورٹرز ایسوسی ایشن،پاکستان کاٹن فیشن اپیرئل مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان بیڈوئیر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان نٹ ویئر اینڈ سوئیٹر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان،پاکستان کلاتھ مرچنٹس ایسوسی ایشن، پاکستان ڈینم مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن،پاکستان ٹیکسٹائل سائزینگ انڈسٹری ایسوسی ایشن،آل پاکستان بیڈ شیٹس اینڈ اپ ہولسٹری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن،پاکستان ویوینگ ملز ایسوسی ایشن، آل پاکستان کاٹن پاور لومز ایسوسی ایشن، کونسل آف لوم اوونرز ایسوسی ایشن، سرجیکل انسٹرومنٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان، پاکستان لیدر گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن،پاکستان ٹینرزایسوسی ایشن، پاکستان اسپورٹس گڈز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان کارپیٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین و نمائندگان اور ایکسپورٹ انڈسٹریز کے ورکرز نے ایک بڑی تعداد میں پریس کانفرنس میں شرکت کی اور پرامن احتجاج کیااوروزیر اعظم پاکستان عمران خان کوملک کے مفاد میں اور ایکسپورٹ بڑھانے کی خاطرپانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کے لئے اسکیم جاری رکھنے کی اپیل کی ہے ۔
نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ انڈسٹری ( نکاٹی) کے سرپرست اعلیٰ کیپٹن اے معیزخان،صدر سید طارق رشید،سینئر نائب صدر اظفرحسین،نائب صدر فیصل شابو،چیئرمین بورڈ فراز مرزا اور سی ای اوصادق محمد نے وفاقی بجٹ 2019-20کو صنعتوں کے فروغ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے 5 برآمدی سیکٹرز کے لیے زیروریٹنگ سیلز ٹیکس کی سہولت ختم کرنے کو صنعتوں کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایس آر او 1125کو منسوخ کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے برآمدی سیکٹرز کے لیے یہ سہولت دوبارہ بحال کرے۔یہ وہ لو گ ہیں جنھوں عمران خان کی اس وقت حمایت کی تھی جب ان کی پارٹی کی دور دور تک کامیابی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھیان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کاروبار کو آسان بنانے اور برآمدات کو فروغ دینے کے ویژن کے ساتھ تاجروصنعتکار برادری کو سازگار کاروباری ماحول فراہم کرنے کی یقین دہانی کرواتی رہی ہے لیکن عملی اقدامات حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں جس کا اندازہ وفاقی بجٹ 2019-20 میںتجارت و صنعت پر ٹیکسوں کے حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ارباب اقتدار یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صنعتوں کا پہیہ گھومے گا تو ملک ترقی کرے گا مگر موجوہ حکومت تجارت و صنعت کو ترقی دینے کے بجائے نجانے کس طرح ملک کو معاشی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے شاید برآمدات کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔نکاٹی کے رہنماؤں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برآمدی صنعتوں کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے سے پیداواری لاگت میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوجائے گا
ملک کے معروف اور تاجر برادری کے بھائی اور ایف پی سی سی آئی پر برسراقتدار پارٹی کے سر براہ ایس ایم منیربرسوں سے ہر حکومت کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انھوں نے بھی جسارت سے کہا کہ قومی بجٹ میں صنعتوں اور برآمداتی شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے، زیرو ریٹڈ سہولت کے خاتمے سے صنعتیں تباہ اور برآمدات کم ہونے کے خدشات ہیں۔ ایس ایم منیر کا کہنا تھا کہ صنعتوں کی پیداواری لاگت میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگا اور برآمدات میں اضافے کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریفنڈز کی ادائیگی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے حکومت کے چند ماہ پہلے پیش کردہ اصلاحاتی پیکیج کا وعدہ دہرا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھی، خوردنی تیل، چینی سمیت اشیاء صرف پر عائد ہونے والے ٹیکس سے ہونے والی مہنگائی سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ صدر کاٹی دانش خان کہنا تھا کہ صنعتکاروں کی جانب سے حکومت کی معاشی ٹیم کے سامنے صنعتوں اور برآمداتی شعبے کے مسائل کے پیش نظر زیر وریٹڈ سہولت برقرار رکھنے کا مطالبہ رکھا گیا لیکن افسوس ہے کہ اس پر کان نہیں دھرا گیا۔ دانش خان کا کہنا تھا کہ گارمنٹس اور لیدر سمیت پانچ بڑے درآمداتی شعبوں پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ اور توانائی کے نرخوں پر دی گئی
اعلان بجٹ کے بعد کراچی میں تین بڑی پریس کانفرنس کا انعقاد تاجر برادی نے کیا جس میں انھوں نے بتایا کہ بزنس کمیونٹی سے جووعدے کیئے وہ پورے نہیں کیئے،یہ بجٹ مشکل بجٹ ہے جس سے ہمیں مایوسی ہوئی کیونکہ بزنس کمیونٹی کی بجٹ سے توقعات پوری نہیں ہوئیں۔انکا کہنا تھا کہ پاکستان افواج نے اپنے بجٹ میں جو کمی کی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ بزنس فرینڈلی بجٹ نہیں ہے کیونکہ فائیلرز پر ہی مزید ٹیکسوں کا دبائوڈال دیا گیا ہے،ایکسائز ڈیوٹی دنیا بھر میں ختم ہوگئی ہے لیکن پاکستان میں بہت زائد شرح سے لگادی گئی ہے جس سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگا،زیروریٹیڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو برباد کردیا گیا ہے،پہلے ہی 400ارب روپے کے ریفنڈز حکومت کے پاس ہیں جو وعدوں کے باوجود کئی سال سے نہیں دیئے گئے اور اگر مزید 400ارب روپے حکومت کے پاس جمع ہوئے تو کیسے دے گی،ٹیکسٹائل کی صنعت کابراحال ہے مشینیں تول کے بھائو بِک رہی ہیں،حکومت کا5550ارب روپے کا ریونیو ہدف کا حصول انتہائی مشکل ہوگا۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھی وفاقی بجٹ کو سخت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگ بھگ تمام ہی صنعتوں پر نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیںجس کے نتیجے میں عام افراد براہ راست متاثر ہونگے ،معلوم نہیںکہ ایسا بجٹ کس کی ایماء پر تیار کیا گیا ہے جبکہ زیرو ریٹڈ کی سہولت ختم کرنے سے ملکی بر آمدات میںکمی ہوگی اور بے روزگار ی میںاضافہ ہوگا۔ بزنس مین گروپ کے سربراہ سراج قاسم تیلی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان کے معاشی ایجنڈے کیلئے جو لوگ کام کررہے ہیں وہ ٹھیک نہیں،ٹیکسٹائل کو 17فیصد۔ اسٹیل 17 فیصد۔آٹو موبائل 10فیصد۔ جیولری ماربل 17فیصد ڈیوٹی بڑھادی گئی،چینی۔گھی۔کوکنگ آئل مشروبات پر ڈیوٹی 17فیصد بڑھائی گئی، ایف بی آرکو ٹیکس وصولی کیلئے 5550ارب روپے کا انتہائی مشکل ہدف دیا گیا ہے ،بجٹ تقریر میں کہا گیا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میںعام آدمی پر کوئی بو نہیںپڑے گا ،تاہم لگ بھگ تمام ہی صنعتوں پر نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں جس سے یقینی طور پر عام عوام براہ راست متاثر ہونگے ،چینی پر جی ایس ٹی میں اضافے سے کیا عام آدمی متاثر نہیںہوگا؟صنعتیں نئے ٹیکس لگنے کے بعد اپنی اضافی پیداواری لاگت کو عوام تک منتقل کریںگی جس سے مہنگائی میںاضافہ ہوگا ،چینی کے ساتھ ساتھ سیمنٹ پر بھی ڈیوٹی میںاضافہ کیا گیا ہے جس سے تعمیرات مہنگی ہوجائینگی اور لوگوں کیلئے اپنے گھروں کی تعمیر کا خواب مزید مشکل ہوجائیگا ،ہمیںچیئرمین ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ٹیکس دینے والوں کو نہیں چھیڑا جائیگا ،تاہم اس بجٹ سے لگتا ہے کہ ٹیکس دینے والوں پر ہی مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے ،ہمارا مطالبہ ہے کہ ٹیکس وصولی کے چکر میںچلتی ہوئی صنعتوں کو بند نہ کیا جائے ،بیوریجز کی صنعت پہلے ہی100ارب روپے کا ٹیکس ادا کررہی ہے اور اس سے مزید10ارب روپے کا ٹیکس مانگ لیا گیا ہے ،لگژری آئٹمز پر ٹیکسوں کا خیر مقدم کرتے ہیں،تاہم 1000سی سی گاڑی پر ٹیکس عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ یہ چھوٹی گاڑی ہے جو کہ لگژری آئٹم کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔ کے سی سی آئی کے سابق صدرزبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ چینی ،گھی اور کھانے کے تیل مہنگے کردیئے گئے ہیں،پانچ بر آمدی سیکٹرز پر 17فیصد ڈیوٹی ناقابل قبول ہے ،ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ کہاں کہاں ٹیکس لگائے گئے ہیں،تاہم یہ ایک سخت بجٹ ہے جو پتہ نہیںکس کی ایماء پر بنایا گیا ہے،حکومت صرف اپنا کیش فلو درست کرنے کیلئے کام کررہی ہے،یہ عام آدمی سے لیکر ایک صنعتکار تک کیلئے سخت ترین بجٹ ہے اور پورے بجٹ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے سابق سینئرنائب صدر خالدتواب نے کہا کہ حکومت کا بجٹ عوام دوست نہیں ہے،بجٹ میں اسمگلنگ کو روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا،اسمگلنگ بڑھنے سے حکومت کا ریونیو کم ہوگا۔کے سی سی آئی کے سابق صدر ہارون فاروقی نے کہا کہ یہ بجٹ نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور عمران خان کا روڈ میپ ہے،حکومت نے اتنے محاذ کھول دیئے ہیں کہ انہیں قابو کرنا مشکل ہوگا۔سابق صدر انجم نثار نے کہا کہ حکومت ریونیو اہڈاف نہ پہلے حاصل کرپائی اور نہ ہی نیا ہدف حاصل ہوسکے گا،حکومت نے پاکستان کے عام افراد کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے جنکا کچن اب انکی دسترس سے بھی باہر ہوجائے گا۔