برصغیر کے کمیونسٹوں کو پاکستان کے قیام کے تصور سے نفرت تھی اور تحریک پاکستان کے ابتدائی عرصے میں وہ قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے مگر پھر سوویت یونین سے ’’حکم‘‘ آگیا کہ پاکستان کی حمایت کرنی ہے۔ چناں چہ کمیونسٹوں نے پاکستان کی حمایت شروع کردی مگر ان کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت موجود رہی، اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آرہا تھا اور کمیونسٹ خدا اور مذہب کے سخت خلاف تھے۔ چناں چہ کمیونسٹ عناصر گزشتہ 70 سال کے دوران ہر موقع پر پاکستان کے خلاف زہر اُگلتے رہے اور اب بھی اُگل رہے ہیں۔
فیض کمیونسٹوں کی سرخیاں تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے تاریخ ساز واقعے پر صبح آزادی کے نام سے جو نظم لکھی ہے وہ ان کے مجموعہ کلام دست صبا میں موجود ہے۔ فیض نے فرمایا ہے۔
یہ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سُست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہ غم دل
……..
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
قائد اعظم کے مغربی سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ نے کہا ہے کہ کم لوگ ہوں گے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدلا ہوگا۔ اس سے بھی کم وہ ہیں جنہوں نے جغرافیہ تبدیل کیا ہوگا اور شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے ہیں۔ مگر فیض کو برصغیر کی ملت اسلامیہ کی آزادی داغ، داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر نظر آئی اور انہوں نے فرمایا کہ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے اعلان کے بعد برصغیر میں بہت خون خرابہ ہوا۔ اس لیے فیض نے صبح آزادی کے اُجالے کو داغ داغ قرار دیا ہے۔ بلاشبہ قیام پاکستان کے وقت بہت خون خرابہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اس ہنگامے میں 10 لاکھ افراد مارے گئے۔ تاہم سوویت یونین میں جو انقلاب آیا اس میں 80 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ چین میں انقلاب 4 کروڑ افراد کو نگل گیا۔ مگر فیض نے کبھی ان انقلابات کی صبح کو داغ داغ اجالا قرار نہ دیا بلکہ وہ ان انقلابات کو انسانیت کی تاریخ کے عظیم واقعات باور کراتے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ انقلابات فیض کے ’’عقیدے‘‘ کے مطابق آئے تھے اور پاکستان فیض کے عقیدے کی ضد کے تحت یعنی اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ چناں چہ ان کے نزدیک قیام پاکستان اتنا بڑا تاریخی واقعہ نہ تھا کہ اس کو سراہا جاتا۔ اس کی تعریف میں کوئی نظم، کوئی گیت یا کوئی غزل کہی جاتی بلکہ فیض نے قیام پاکستان کو داغ داغ اجالا قرار دے کر اس پر تھوک دیا۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہ تھی۔ قیام پاکستان کے سلسلے میں برصغیر کے کمیونسٹوں کا مجموعی رویہ یہی تھا۔
زاہدہ حنا نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کمیونسٹ شاعر کیفی اعظمی کے مجموعے ’’پیراہن شرر‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس کی ایک نظم کے دو مصرعے کوٹ کیے ہیں۔ مصرعے یہ ہیں۔
’’اسی سرحد پہ کل ڈوبا تھا سورج ہو کے دو ٹکڑے
اِسی سرحد پہ کل زخمی ہوئی تھی صبح آزادی
(روزنامہ ایکسپریس۔ 15 مئی 2019ء)
کیفی اعظمی کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی ملی تو مگر آزادی کے دن ہندوستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ چناں چہ صبح آزادی زخمی ہو کر رہ گئی۔ غور کیا جائے تو کیفی اعظمی بھی مختلف الفاظ میں فیض کی بات دہرا رہے ہیں۔ وہ بھی کہہ رہے ہیں۔
یہ داغ، داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
چوں کہ سابق کمیونسٹ زاہدہ حنا نے کیفی اعظمی کی نظم کے مذکورہ بالا دو مصرعوں کو بڑے جوش و جذبے سے پیش کیا ہے اور اپنے کالم میں انہوں نے کیفی اعظمی کی بہت تعریف کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی دل میں فیض اور کیفی کی طرح قیام پاکستان کے ’’دُکھ‘‘ اور ’’المیے‘‘ کو بڑی شدت سے محسوس کرتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ کیفی کے مذکورہ دو مصرعوں کے بجائے کیفی کے کلام سے کچھ اور پیش کرتیں۔ مگر پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کی جڑیں نہ کاٹیں اور ’’متحدہ ہندوستان‘‘ کے تصور کا طواف نہ کریں تو کمیونسٹ، کمیونسٹ کیسے کہلائیں؟۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ فیض احمد فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں خوامخواہ پھنسایا گیا ورنہ وہ کہاں پاکستان کے خلاف سازش کرنے والے تھے۔ لیکن جو لوگ کمیونسٹوں کی الف ب بھی جانتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ کمیونسٹوں نے ہمیشہ پاکستان کے نظریے اور اس کی وحدت و سلامتی کے خلاف خفیہ سازشیں کی ہیں۔ اتفاق سے اس سلسلے میں اتنی ٹھوس شہادتیں دستیاب ہیں کہ ان کا شمار بھی آسان نہیں۔
جمعہ خان صوفی پاکستان کے ایک کمیونسٹ دانش ور ہیں۔ ان کی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’’فریب ناتمام‘‘ کے عنوان سے کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی۔ آئیے اس کتاب کے چند اقتباسات ملاحظہ کرتے ہیں، لکھتے ہیں۔
’’دوست حضرات (سوویت یونین) کو سوچنا چاہیے کہ اب پاکستان کے حالات سے کس طرح فائدہ اٹھائیں‘‘۔ (صفحہ۔445)
مزید فرماتے ہیں۔
’’امرتسر ٹی وی کا نمائندے کے نیئر (K.NAYYAR) کہتا تھا کہ وہ لاہور میں دو جگہوں پر گیا اور دونوں جگہ ایک ہی بات ہورہی تھی کہ تقسیم ہند کی وجہ سے پنجاب تقسیم ہو کے رہ گیا۔ (اب) انہی خطوط پر پروپیگنڈ کیا جائے۔ (صفحہ۔445)
اسی صفحے پر مزید لکھتے ہیں۔
’’بھارت اور سوویت یونین کے ساتھ تفاہم (یعنی مفاہمت) ہو تو پھر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ امریکی فوجیں آنے کی باتیں فقط دھمکی ہوسکتی ہیں۔ وہ نہیں آسکتے۔ آپ قبائلیوں کو اسلحہ اور پیسہ نہیں دے سکتے؟ صرف بھارت، سوویت یونین اور آپ کا مشترکہ فیصلہ چاہیے۔ کشمیر اور سندھ میں بھارت بلوچستان اور پختونوں میں آپ کام شروع کریں۔ (صفحہ۔445)
جیسا کہ آپ نے محسوس کیا ہوگا ان اقتباسات میں بھی پاکستان کا قیام داغ داغ اجالا اور شب گزید سحر ہی نظر آرہا ہے۔ یہ اقتباسات 1980ء کی دہائی کی یاد دلاتے ہیں۔ اس دہائی میں کمیونسٹ اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ سوویت یونین اور بھارت کی مدد سے پاکستان کو توڑا جائے۔ چناںچہ جمعہ خان صوفی کہیں سوویت یونین کو پاکستان میں مداخلت کرتے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں ان کی تمنا ہے کہ سوویت یونین اور بھارت مل جل کر ان کی مدد کریں تا کہ پاکستان توڑنے میں ’’آسانی‘‘ پیدا ہوسکے۔ کہیں وہ اس بات پر خوش ہیں کہ بھارتی ٹی وی کا ایک اہلکار پاکستانی پنجاب میں آیا تو وہ ایسے لوگوں سے ملا جو اس بات کا ماتم کررہے تھے کہ پاکستان کے قیام نے پنجاب کو دو کرکے ’’پنجابی بھائیوں‘‘ کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ چناں چہ جمعہ خان صوفی ’’Excited‘‘ ہو کر سوچتے ہیں کہ پاکستان توڑنے کے لیے پروپیگنڈے کے لیے بڑی اچھی دلیل ہے کہ قیام پاکستان نے بھارتی اور پاکستانی پنجاب کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔
اس سلسلے میں جمعہ خان صوفی کی کتاب سے دو اقتباسات اور ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے آمادہ ہوں اور کابل آسکتا ہوں۔ بھارت سے بات کریں۔ سوویت یونین سے مفاہمت ضروری ہے وگرنہ پاکستان میں جدوجہد کے راستے مسدود ہوچکے ہیں‘‘۔ (صفحہ۔246)
’’پاکستان میں اندرونی حالات تشویشناک ہیں۔ چھوٹے صوبوں کے لوگ کہتے ہیں کہ اب پاکستان کا ٹوٹنا ہی سب مسائل کا حل ہے۔ سندھی جو Docile اور تشدد کے خلاف ہیں۔ انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ جب تک باہر سے ایک قوت کی امداد نہ ہو تو یہ مقصد (یعنی ) پاکستان کا ٹوٹنا حاصل نہیں ہوسکتا۔ سندھی شکایت کرتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ پختونوں اور بلوچوں کا افغانستان کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں‘‘۔ (صفحہ۔ 447)
پاکستان میں سیاسی اور معاشی انصاف کی صورتِ حال ہمیشہ مخدوش رہی ہے اور سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے جدوجہد سب کا حق ہے مگر کمیونسٹوں کا مسئلہ یہ تھا اور یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے جدوجہد بھی سوویت یونین، بھارت اور افغانستان کی مدد سے کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ماسکو جائیں اور سوویت یونین کی فوج کو اُٹھا کر پاکستان لے آئیں۔ بدقسمتی سے آج بھی کمیونسٹوں کے طور طریقے نہیں بدلے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے وہ سوویت یونین کے کیمپ میں کھڑے ہو کر اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے تھے اور آج وہ امریکی کیمپ میں کھڑے ہو کر اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ وہ کل بھی ’’مشتبہ‘‘ تھے، وہ آج بھی ’’مشتبہ‘‘ ہیں، وہ کل بھی پاکستان، پاکستان کے نظریے اور پاکستانی قوم کے ’’غدار‘‘ تھے اور آج بھی وہ پاکستان، پاکستان کے نظریے اور پاکستانی قوم کے غدار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کل ان کا کعبہ سوویت یونین تھا اور آج ان کا کعبہ امریکا ہے۔ یہ ’’تغیر‘‘ بتاتا ہے کہ کمیونسٹوں کے پاس ضمیر نام کی چیز ہے ہی نہیں۔ ان کے پاس ضمیر ہوتا تو وہ کبھی بھی امریکی کیمپ کا حصہ نہیں بن سکتے تھے۔ آخر انہوں نے 70 سال تک امریکا کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ مگر اسلام اور پاکستان سے کمیونسٹوں کی دشمنی سچی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ اب سوویت یونین کے ذریعے اسلام دشمنی نہیں ہوسکتی تو انہوں نے اسلام دشمنی کے لیے امریکا کو گلے سے لگا لیا۔ البتہ بھارت کے وہ کل بھی عاشق تھے اور آج بھی عاشق ہیں۔ پاکستان کا قیام انہیں کل بھی داغ داغ اجالا نظر آتا تھا اور آج بھی انہیں داغ داغ اجالا ہی دکھائی دیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے پاکستان کے خاتمے کے حوالے سے کل سوویت یونین، بھارت اور افغانستان کا تکون متحرک تھا اور آج پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے امریکا، بھارت اور افغانستان کا تکون متحرک ہے۔ کمیونسٹ پہلے تکون کے بھی وفادار تھے اور نئے تکون کے بھی وفادار ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران کل بھی اندھے تھے آج بھی اندھے ہیں۔