صحابہ کرام کے فضل وکمال کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب کیا کہتی ہے ملا حظہ فرمائیے:
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کا فروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں، تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں اور انجیل میں، ان کی مثال یہ ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت کار اس سے خوش ہوتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ ان (کی ترقی) سے کافروں کے دل جلائے، یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے (سورۃ الفتح: 29)
رفعت اور بلندی کی ان علامات کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے غزوہ احد کے حوالے سے کیا کہا ہے ذرا سنئے: ’’جب جنگ احد ہوئی سرکار مدینہ نے جو تیر کمان والے تھے ان کو کہا تھا کہ تم نے اپنی پوزیشن نہیں چھوڑنی جب لوٹ مار شروع ہوئی وہ چھوڑ کر چلے گئے۔ سرکار مدینہ کا حکم نہیں مانا‘‘۔
اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر جب رسالت مآب ؐ نے لشکر کی ترتیب وتنظیم قائم کی تو ماہر تیراندازوں کے ایک دستے کو جو پچاس مردان جنگی پر مشتمل تھا اسلامی لشکر سے کوئی ڈیڑھ سو کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعینات کیا اور ارشاد فرمایا: ’’شہسواروں کو تیر مارکر ہم سے دور رکھو۔ وہ پیچھے سے ہم پر چڑھ نہ آئیں۔ ہم جیتیں یا ہاریںتم اپنی جگہ رہنا۔ تمہاری طرف سے ہم پر حملہ نہ ہونے پائے‘‘۔ اس دستے کی کمان سیدنا جبیر بن عبداللہ ؓ کے سپرد تھی۔ جنگ آغاز ہوئی۔ اللہ نے مسلمانوں پر اپنی مدد نازل کی۔ مشرکین کو بلا شبہ شکست فاش ہوئی۔ تیراندازوں سے ایک خوفناک غلطی کا ارتکاب ہوا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا رسول کریم ؐ کے تاکیدی احکامات کے باوجود جب انہوں نے یہ سمجھا کہ ان کے ساتھی جیت گئے ہیں، جنگ ختم ہوگئی ہے اور وہ مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو انہوں نے خیال کیا کہ اب انتظار کس بات کا؟ چالیس صحابہ کرام نے مورچے چھوڑ دیے اور وہاں صرف عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے نو ساتھی مورچوں میں ڈٹے رہے اس عزم کے ساتھ کہ یا تو انہیں اجازت دے دی جائے گی یا وہ اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیں گے۔ اسے جان بوجھ کر کی گئی نافرمانی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ایک اجتہادی غلطی تھی جسے عمران خان نے لوٹ مار جیسے قبیح لفظ سے تعبیر کیا۔ یہ لوٹ مار نہیں مال غنیمت کا حصول تھا۔ لوٹ مار اور مال غنیمت کے فرق پر بات تو آگے چل کر ہوگی پہلے یہ بات واضح ہوجائے کی کیا صحابہ کرام مال ودولت کے حریص اور لوٹ مار کے خوگر تھے۔ وہ صحابہ کرام جواس درجہ سخی اور فیاض تھے کہ آسمان نے آج تک ان سے زیادہ سخی اور فیاض جماعت نہیں دیکھی۔ صحابہ کرام کی فیاضی کے ان گنت واقعات ہیں۔ صرف ایک موقع غزوہ تبوک میں صحابہ کرام کی فیاضی کے واقعات ملاحظہ فرمائیے:
اس موقع پرصدقہ وخیرات دینے میں صحابہ کرام کا یہ حال تھا سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں تھے۔ سیدنا عثمانؓ نے ملک شام کے لیے ایک قافلہ تیار کیا تھا جس میں دوسو اونٹ اور تقریباً ساڑھے انتیس کلو چاندی تھی۔ آپ نے یہ سب صدقہ کردیا۔ اس کے بعد پھر ایک سو اونٹ پالان اور کجاوے سمیت صدقہ کیے۔ اس کے بعد ایک ہزار دینار (ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے) لائے اور انہیں نبی کریم ؐ کی گود میں بکھیر دیا۔ اس کے بعد سیدنا عثمان نے پھر صدقہ کیا، پھر صدقہ کیا، یہاں تک کہ ان کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑوں تک جا پہنچی۔ ادھر سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓدو سو اوقیہ (تقریباً ساڑھے 29کلو) چاندی لے آئے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے اپنا سارا مال حاضر خدمت کردیا اور بچوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے سوا کچھ نہ چھوڑا۔ ان کے صدقے کی مقدار چار ہزار درہم تھی اور سب سے پہلے یہی تشریف لائے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے اپنا آدھا مال خیرات کیا۔ سیدنا عباس ؓ بہت سا مال لائے، سیدنا طلحہؓ، سعد بن عبادہ ؓاور محمد بن مسلمہؓ بھی کافی مال لائے۔ سیدنا عاصم بن عدیؓ90وسق (ساڑھے 13ہزار کلو) کھجور لے کر آئے۔ بقیہ صحابہ بھی پے درپے کم زیادہ جس سے جو بن پڑا لے آئے۔ یہاں تک کہ کسی نے ایک مُد (ایک کلو سے کچھ زیادہ) یا دو کلو صدقہ کیا کہ وہ اس سے زیادہ کی قدرت نہیں رکھتے تھے۔ عورتوں نے بھی ہار، بازوبند، پازیب، بالی اور انگوٹھی وغیرہ جو کچھ ہوسکا آپ ؐ کی خدمت میں بھیجا۔ کسی نے بھی اپنا ہاتھ نہ روکا۔
آدمی کا ظاہر اس کے اندرون کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انسان اپنے لاشعور کا تابع ہوتا ہے۔ یہ صحابہ کرام کے باطن، قلب اور ضمیر کی فیاضی تھی جو ان کے ظاہری اعمال میں نظر آتی تھی۔ کیا اس طرح اللہ کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے مال ودولت لٹانے والوں کے بارے میں یہ تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ لالچ اور حرص کا شکار ہوں، لوٹ مار کی طرف رغبت رکھتے ہوں۔ کیا کوئی اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ وہ جو آج کل کے حساب سے کروڑوں روپے اللہ کی راہ میں صدقہ وخیرات کررہے ہوں دوچار روپے کی لوٹ مار کے لیے اس عالی شخصیت کی جان خطرے میں ڈالیں گے جن کا عشق ان کی روحوں پر چھایا ہوا تھا۔ جو اس طرح آپ ؐ کی طرف لپکتے تھے جیسے ویران صحرا میں بھٹکنے والا پانی کی طرف لپکتا ہے۔ کیا اس دنیا کی مال ودولت کے لیے وہ ان کے حکم سے روگردانی کریں گے جن کی ذات اقدس انہیں تمام قابل محبت چیزوں سے زیادہ محبوب اور قریب ترین تھی۔ یہ جنگ میں جیت کی خوشی تھی، جیت کے جذبات اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بانٹنے کی خواہش تھی کہ انہوں نے پہاڑی چھوڑ دی۔ پھر یہ خیال کہ آپ ؐ کا حکم جنگ کے خاتمے تک تھا اور اب جنگ ختم ہوچکی ہے۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ صحابہ کرام کی اس جماعت نے ایسا مال غنیمت کے حصول کے لیے کیا تھا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم ان عظیم ہستیوں پر تنقید کرنے کی ہم میں اہلیت نہیں اور نہ ہی ہمیں یہ حق حاصل ہے۔ وہ مقربین (اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ نزدیکی) کا فخررکھنے والے تھے اور مقربین کے ساتھ برتائو کے خاص معیار ہوتے ہیں۔ یہ وہ مخلص اور جاں نثار لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم کے دست مبارک پر آخرت کی خاطر دنیا چھوڑنے کا عہد کیا تھا اور ہر ہر لمحے ایسا کرکے دکھایا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہنے کی جرات کی جاسکتی ہے کہ ان سے مقربین کی شان کے منافی عمل سرزد ہوا۔
جہاں تک عمران خان کی اس بات کا تعلق ہے کہ انہوں نے سرکار مدینہ کا حکم نہیں مانا تو صحابہ کرام ایسا کرنا تو درکنار اس بات کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو درپیش مایوس کن حالات کے سدباب کے لیے آپ ؐ نے حکم جاری فرمایا کہ غزوہ احد کے تمام تندرست اور زخمی شرکا دشمن کے مقابلے کے لیے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ تیار ہوکر جمع ہوگئے اور حملے کے لیے چل پڑے۔ ان میں سے کسی کے ہاتھ زخمی تھے اور کسی کے پائوں اور بعض انتہائی مشقت سے چل رہے تھے لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ؐ کا فرمان سنتے ہی وہ ایک متعین مقام پر جمع ہونے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگے تھے۔
(جاری ہے)