اسلام دینِ فطرت ہے، ایک جیسی کیفیت سے انسان اکتا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی حکمت سے انسان پر مختلف اوقات میں مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں، کبھی جلال کی کیفیت ہوتی ہے اور کبھی جمال کی، کبھی سنجیدگی طاری ہوتی ہے اور کبھی انسان مزاح کے موڈ میں ہوتا ہے۔ سید المرسلین ؐ کی سیرتِ طیبہ کا کمال ہے کہ ہر حال میں آپ کی مبارک ذات سے عملی نمونہ مل جاتا ہے۔ لوگ مختلف کیفیات میں انتہا پر چلے جاتے ہیں، اعتدال کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، لیکن رسول اللہ ؐ ہر کیفیت میں حدِّ اعتدال کے اندر رہتے تھے، حدیث پاک میں ہے:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ؐ سے جو بھی چیز سنتا، یاد کرنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا، پس قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم رسول اللہ ؐ سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتے ہو، حالانکہ آپ ؐ بشر ہیں، کبھی غضب کی حالت میں بات کرتے ہیں اور کبھی رِضا میں (یعنی ان حالتوں میں توازن قائم نہیں رہتا)، پھر میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور اس بات کا رسول اللہ ؐ سے ذکر کیا، آپ ؐ نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تم ہر بات لکھ لیا کرو، اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، کیفیت کوئی بھی ہو، اس منہ سے حق کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا، (ابودائود)‘‘۔ سیدنا حسان بن ثابت نے فرمایا:
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائُ
خُلِقْتَ مُبَرَّ أً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآئُ
ترجمہ: ’’(یارسو ل اللہ!) آپ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا نہیں، آپ سے بڑھ کرصاحبِ جمال کسی ماں نے جنا نہیں، آپ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا ہے، گویا آپ کو آپ کے حسبِ منشا بنایا گیا‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ’’صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ ہمارے ساتھ خوش طبعی فرماتے ہیں، آپ ؐنے فرمایا: (ہاں)! لیکن میں اس خوش طبعی میں صرف حق بات کہتا ہوں، (ترمذی)‘‘۔ نبی کریم ؐ کو اللہ تعالیٰ نے عالَمِ بشریت میں اکمل واَتَمّ اور بے مثال بنایا ہے، محمد علی ظہوری کا پنجابی میں نعتیہ شعر ہے:
دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا
لَبھ کے لیاواں کتھوں سوہنا ترے نال دا
آپ ؐ بچوں کے ساتھ بھی دل لگی فرماتے اور ان کا دل بہلاتے:
انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ ہم سے گھل مل جاتے حتیٰ کہ (بے تکلفی میں) میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے: اے ابوعمیر! تمہاری چڑیا نے کیا کیا ہے، (بخاری)‘‘۔ (عمیر سیدنا ابوطلحہ انصاری کے بیٹے ہیں) زید بن سہل، اپنے نام سے زیادہ کنیت ابوطلحہ کے ساتھ معروف ہیں، سیدنا انس کے ماں شریک بھائی تھے، عُمیر اور نُغَیر تصغیر کے صیغے ہیں، عرب میں پیار کے طور پر تصغیر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے ہمارے ہاں اردو میں چھوٹے کو چھٹّن یا چھوٹو کہتے ہیں۔
سیدنا انس بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ ؐ سے سواری مانگی تو آپ ؐنے فرمایا: میں تم کو اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا، آپ ؐ نے فرمایا: ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے، (ترمذی)‘‘۔
حسن بصری بیان کرتے ہیں: ایک بوڑھی عورت نبی ؐ کے پاس آئی اور کہنے لگی: یارسول اللہ! دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردے، آپ ؐ نے فرمایا: اے فلاں کی ماں! جنت میں کوئی بوڑھی عورت داخل نہیں ہوگی، وہ عورت روتے ہوئے واپس جانے لگی تو نبی ؐ نے فرمایا: اس کو بتائو کہ جنت میں کوئی عورت بڑھاپے کے عالَم میں داخل نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہم نے ان کی بیویوں کو خصوصیت سے پیدا فرمایا ہے، ہم نے ان کو دوشیزہ بنایا، محبت کرنے والیاں ہم عمر، (الواقعہ: 35-38)، (شمائل محمدیہ)‘‘۔ ’’انس بیان کرتے ہیں: مجھ سے رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اے دو کانوں والے‘‘، (ابودائود)‘‘۔ ’’عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے مزاح کے طور پر دوسرے شخص کے جوتوں کو غائب کردیا، رسول اللہ ؐ کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا: مسلمانوں کو ڈرایا نہ جائے، کیونکہ مسلمان کو ڈرانا ظلمِ عظیم ہے، (الترغیب والترہیب)‘‘۔
ترجمہ: ’’ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے علقمہ بن مُجَزِّز کو ایک لشکر میں بھیجا، میں بھی اُن میں شامل تھا، جب وہ وہاں پہنچے یا راستے میں تھے تو لشکر میں سے کچھ لوگوں نے اُن سے اجازت لی، انہوں نے ان کو اجازت دی اور اُن پر عبداللہ بن حذافہ کو امیر بنایا، میں بھی اُن کے ہمراہ تھا، جب وہ راستے میں تھے تو کچھ لوگوں نے تاپنے یا کچھ پکانے کے لیے آگ جلائی، عبداللہ حذافہ نے خوش طبعی کے طور پر کہا: کیا تم پر میری سمع وطاعت واجب نہیں ہے، انہوں نے کہا: یقینا ہے، انہوں نے کہا: میں تمہیں جس بات کا حکم دوں، اس پر عمل کرنا ہوگا، انہوں نے کہا: ہاں!، عبداللہ بن حذافہ نے کہا: میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ اس آگ میں کود جائو، کچھ لوگ کھڑے ہوئے، جب انہوں نے گمان کیا کہ وہ کودنے والے ہیں تو کہا: رک جائو، میں تو تمہارے ساتھ مزاح کر رہا تھا، جب وہ واپس (مدینہ منورہ) آئے تو نبی ؐ سے اس کا ذکر کیا، آپ ؐ نے فرمایا: تمہیں اللہ کی معصیت کا حکم کس نے دیا، اس کی اطاعت نہ کرو، (ابن ماجہ)‘‘، یعنی مزاح میں بھی شریعت کی پابندی لازم ہے۔
رسول اللہ ؐ نے تعلیم فرمایا کہ مذاق میں بھی کسی کی حق تلفی اور نقصان نہ کیا جائے، حدیث پاک میں ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی بھائی کا سامان نہ تو مذاق میں لے اور نہ سنجیدگی میں، (ابودائود)‘‘۔ ہمارے اکثر مذاق جھوٹ پر مشتمل ہوتے ہیں، نبی ؐ نے سنجیدگی اور مذاق دونوں حالتوں میں جھوٹ کی اجازت نہیں دی، آپ نے فرمایا: ’’کوئی بندہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے خواہ اس کا موقف سچا ہو، جھگڑا نہ کرے، (مسند احمد)‘‘۔
’’رسول اللہ ؐنے تین مرتبہ فرمایا: جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی بات کرتا ہے، اس پر افسوس ہے، (دارمی)‘‘۔ جبکہ ہمارے ہاں سال میں ایک دن لوگوںکو بے وقوف بنانے کا منایا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مکروہ کام جھوٹ کے بغیر آسان نہیں ہوتا۔
’’عوف بن مالک بیان کرتے ہیں: میں غزوۂ تبوک میں حاضرِ خدمت ہوا، آپؐ ایک چمڑے کے خیمے میں تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ ؐنے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: اندر آجائو، میں نے عرض کیا: پورا داخل ہوجائوں یا رسول اللہ ؐ؟، آپ ؐ نے فرمایا: ہاں پورے داخل ہوجائو، پس میں داخل ہوگیا، (ابودائود)‘‘۔ ظاہر ہے کہ آدمی جب گھر میں یا خیمے میں داخل ہوتا ہے تو پورا ہی داخل ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ازراہِ شفقت ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے صحابہ کرام کو بھی مزاح کی اجازت دے رکھی تھی۔
انس بیان کرتے ہیں: ایک شخص کا نام زاہر بن حرام تھا، وہ دیہات میں رہتا تھا اور نبی ؐ کے لیے گائوں سے ہدیے اور تحفے لاتا تھا اور جب وہ جانے لگتا تو نبی ؐ بھی اس کو کچھ سامان دیدیتے۔ آپ فرماتے: زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں، وہ نبی ؐ سے محبت کرتا تھا اور وہ بدشکل تھا۔ ایک دن وہ سودا بیچ رہا تھا، آپ اس کے پاس گئے اور پیچھے سے آکر اس سے اس طرح بغل گیر ہوئے کہ وہ دیکھ نہ سکا۔ اس نے پوچھا: کون ہے، مجھے چھوڑدو، پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو نبی ؐ کو پہچان لیا، پھر اس نے اپنی پیٹھ کو نبی ؐ کے سینہ سے چپکائے رکھا، آپ فرما رہے تھے: یہ غلام کون خریدے گا، اس نے کہا: یارسول اللہ! تب مجھے آپ کھوٹا پائیں گے، آپ نے فرمایا: لیکن تم اللہ کے نزدیک بہت گراں قدر ہو، (شرح السنہ)‘‘۔ زاہر بن حرام آزاد شخص تھا، لیکن ازراہِ مزاح رسول اللہ ؐ نے اللہ کا بندہ مراد لے کر اُسے ’’عبد‘‘ فرمایا، یہ ذومعنیٰ لفظ ہے، اس کے ایک معنی غلام کے بھی ہیں، آپ نے اسے حوصلہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی بڑی قدر ومنزلت ہے اور پیار فرمایا، اس کی عقیدت کا عالَم یہ تھا کہ دیر تک اپنے پشت کو سرورِ عالَم ؐ کے سینے سے ملائے رکھا تاکہ آپ کے جسمِ مبارک کے لمس کا شرف حاصل ہوجائے۔ عام طور پر بڑے لوگ سیاہ فام یا بدصورت شخص سے دور رہتے ہیں، لیکن آپ اپنے صحابہ کی دلداری فرماتے تھے تاکہ اُن کے دل میں احساسِ کمتری پیدا نہ ہو، کیونکہ اللہ کے ہاں صورتوں اور رنگتوں پر نہیں، بلکہ ایمان وعمل پر فیصلہ ہوگا، حدیث پاک میں ہے: ’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے، (مسلم)‘‘۔ بعض اوقات رسول اللہ ؐ مزاح کے طور پر ذومعنی کلمہ استعمال فرماتے:
’’ایک عورت کا نام اُمِّ ایمن تھا، وہ نبی ؐ کے پاس آئی اور عرض کیا: میرا خاوند آپ کو بلا رہا ہے، آپ ؐنے پوچھا: کیا وہی جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! بخدا اس کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے، آپ نے فرمایا: بے شک اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے، اس نے پھر کہا: بخدا ایسا نہیں ہے، آپ نے فرمایا: ہر شخص کی آنکھوں میں سفیدی ہوتی ہے، (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد)‘‘۔ اس خاتون نے وہ سفیدی سمجھی جو آنکھ کی پتلی پر چھا جاتی ہے اور بینائی چلی جاتی ہے، لیکن رسول اللہ ؐ نے مزاح پیدا کرنے کے لیے یہ ذومعنی لفظ استعمال فرمایا۔
سیدنا صہیب بیان کرتے ہیں: ایک دن میںنبی ؐ کے پاس حاضر ہوا، وہاں پکی ہوئی اور نیم پختہ کھجوریں رکھی تھیں، میری ایک آنکھ دکھ رہی تھی، میں نے کھانے کے لیے ایک کھجور اُٹھا لی۔ نبی ؐنے (مزاح کے طور پر) فرمایا: کیا تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ دکھتی ہے؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنی صحیح آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں، رسول اللہ ؐ ہنس پڑے، (ابن ماجہ)‘‘۔ مزاح اور استہزاء وہزل میں فرق ہے: مزاح خوش طبعی کے لیے کیا جاتا ہے، جبکہ ہزل اور استہزاء سے دوسرے کی اہانت مقصود ہوتی ہے۔