رسول اللہ ؐ کے انفاس طیبہ، ملفوظات اور ارشادات نے صحابہ کرامؓ میں قوت وعزم کی وہ روح پھونکی تھی کہ آپ ؐ کا حکم ماننے اور آپ ؐ کی آواز پر لبیک کہنے میں وہ ایک دوسرے سے آگے بڑ ھنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ ایک شاعر نے کہا تھا:
ترجمہ: اگر آپ ؐ کے معجزات کا وہی مقام ہوتا جو آپ ؐ کا تھا تو آپ ؐ کا نام لینے سے قبروں میں پڑی بوسیدہ ہڈیاں زندہ ہوجاتیں… آپ ؐ کی پکار نے احد کے شرکا کو نئی زندگی عطا کی اور وہ آپ ؐ کی دعوت پر لبیک کہنے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرنے لگے۔
تصور کیجیے غزوہ احد میں مسلمانوں کو وقتی طور پر ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا۔ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص جیسے سیاسی اور عسکری ماہرین جنہوں نے مستقبل میں بڑے بڑے لشکروں کے قدم اکھاڑ دیے تھے بدقسمتی سے اس وقت مشرکین کی صفوں میں موجود تھے۔ لہٰذا یوں کہا جاسکتا ہے غزوہ احد میں مستقبل کے صحابہ اس وقت کے صحابہ پر غالب آگئے تھے۔ بہرحال وہ حادثہ پیش آیا جس میں ستر صحابہ شہید ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں اس قدر زخمی ہوئے کہ حرکت کے بھی قابل نہ رہے لیکن جیسے ہی مسلمانوں کو رسالت مآب کا ایک جگہ جمع ہونے کا حکم ملا صحابہ کرام کی تعمیل میں جان فشانی کا عالم ملاحظہ فرمائیے:
ایک صحابی فرماتے ہیں ہم نے اپنے دوست کو کاندھے پر اٹھایا ہوا تھا جو چل نہیں سکتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم اسے میدان جنگ تک اٹھا کر لے جائیں کیونکہ اگرچہ وہ تیراندازی نہیں کرسکتا لیکن نیزہ چلا سکتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے ایک دوسرے شخص کو اٹھایا ہوا تھا۔ ہم میں سے بعض بے ہوش ہوکر گر بھی پڑتے لیکن اس حالت میں بھی ہم وادی حمراء الاسد تک جا پہنچے۔ جہاں سے مشرکین مسلمانوں کے چولہوں سے اٹھنے والے دھوئیں کو دیکھ سکتے تھے۔ جونہی مشرکین نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا جسے وہ اپنے خیال میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے تھے۔ حیرت سے ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ ابوسفیان پر تو اس قدر خوف طاری ہوا کہ وہ چلا چلا کر کوچ کرنے کے لیے کہنے لگا۔ اگرچہ وہ مدینے پر حملہ کرنے آئے تھے لیکن اب انہیں یہ فکر دامن گیر تھی کہ کہیں اس دفعہ ان پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے لہٰذا اب انہیں جلداز جلد مکہ تک پہنچنے کی فکر لا حق تھی۔
صحابہ کرام کی جان نثاری اور رسول اللہ ؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے اس قدر واقعات ہیں کہ ان کا احاطہ ناممکن ہے۔ ہم نے تحریرکو غزوہ احد کے واقعات تک محدود رکھا ہے کیا ان واقعات کو دیکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ صحابہ کرام رسالت مآب کی نافرمانی تو کجا اس کا سوچ بھی سکتے تھے۔ تیرانداز صحابہ کرام جنہوں نے گھاٹی چھوڑ دی تھی ان کے بارے میں یہ کہنا کہ سرکار مدینہ کا حکم نہیں مانا، بڑی دریدہ دہنی کی بات ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہنے کی جرات کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے سید البشر سرور کونین رسالت مآب ؐ کی بات کو توجہ سے نہیں سنا اور اس کے نتیجے میں شہادت پاکر پاک ہوکر اپنے خالق سے جا ملے۔ صحابہ کرام آگاہ تھے کہ ختم الرسلین کی اطاعت اور حکم ماننا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کا حکم مانو جس وقت تمہیں اس کام کی طرف بلائے جس میں تمہاری زندگی ہے۔ (سورۃ الانفال: 24)
جہاں تک مال غنیمت کو لوٹ مار کہنے کی عمران خان کی بدزبانی اور گستاخی کا تعلق ہے تو یہ نری جہالت پر مبنی ہے۔ غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو کفار سے قوت وغلبے اور لشکر کشی سے حاصل کیا جائے سورہ انفال کی آیت نمبر ایک کے مطابق ’’مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت ہیں‘‘۔ تمام مجاہدین کو حکم ہے کہ انفرادی طور پر جو چیز جس کے پاس ہے وہ بیت المال میں لاکر جمع کرادے۔ یہ اسلامی ریاست کی ملکیت ہیں۔ پھر مال غنیمت کی تقسیم کے بھی احکامات ہیں۔ سورہ انفال آیت نمبر 41 میں ہی آگے چل کر بیان کیا گیا ہے ’’جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ؐ اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے‘‘۔
مال غنیمت لوٹ مار نہیں ہے کہ جو جس نے لوٹ لیا وہ اس کا ہوگیا۔ مال غنیمت کو جمع کرنا ایک اجتماعی کام اور خدمت جس میں قوم کی بھلائی کا پہلو غالب ہوتا ہے جب کہ لوٹ مار محض ذاتی فائدے کے لیے ہوتی ہے جس میں قوم کے لیے نقصان اور برائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مال غنیمت قومی امانت ہے۔ احادیث مختلف سندوں اور الفاظ کے ساتھ کثرت سے آئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے حقیر سی خیانت بھی قیامت کے دن ذلت اور آگ کا باعث بن جائے گی۔ مال غنیمت حلال اور لوٹ مار حرام ہے۔ صحیح بخاری اور مسند احمد میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’غارت گری سے حاصل شدہ مال حلال نہیں ہے‘‘۔ اسلام میں جو مال لوٹ مار کے ذریعے حاصل ہو وہ حرام ہے۔ اسلام نے لوٹ مار تو کجا معمولی سے معمولی بددیا نتی کے بھی تمام دروازے بند کردیے ہیں۔ لہٰذا صحا بہ کرام ؓ کے بارے میں لوٹ مار کے الفاظ کہنا تو کجا ایسا سوچنا بھی جائز نہیں۔
آپ ؐ نے کبھی لوٹ مار کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ ایسے کسی بھی عمل سے سختی سے منع فرمایا۔ سیرت سے دو مثالیں پیش خد مت ہیں:
خیبر کی لڑائی میں امن کے بعد لوگوں نے یہودیوں کے جانور اور پھل لوٹ لیے۔ اس پر آپ ؐ کو نہایت غصہ آیا۔ آپ ؐ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا خدا نے تم لوگوں کے لیے یہ جائز نہیں کیا کہ اہل کتاب کے گھروں میں گھس جائو مگر بہ اجازت۔ ’’اور نہ یہ کہ ان کی عورتوں کو مارو نہ یہ کہ ان کے پھل کھائو جب کہ وہ تم کو وہ ادا کردیں جوان پر فرض ہے‘‘۔
ابو دائود میں ایک انصاری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ ایک مہم پر گئے اور غایت تنگ حالی اور مصیبت پیش آئی۔ اتفاق سے بکریوں کا ریوڑ نظر آیا اور سب اس پر ٹوٹ پڑے اور بکریاں لوٹ لیں۔ آپ ؐ کو خبر ہوئی۔ آپ ؐ تشریف لائے تو گوشت پک رہا تھا اور ہانڈیاں ابال کھارہی تھیں۔ آپ ؐ کے ہاتھ میں کمان تھی آپ ؐ نے اس سے ہا نڈیاں الٹ دیں۔ سارا گوشت خاک میں مل گیا۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’لوٹ کا مال مردار گوشت کے برابر ہے‘‘۔
نبی کریم ؐ اور آپ کے اصحاب کے بارے میں ذرہ بھر بے ادبی کی گنجائش نہیں ہے۔ خفیف سی بد گمانی دنیا وآخرت کی رسوائی اور بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ جن مقدس ہستیوں کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ رضی اللہ عنہم اللہ ان سے راضی ہوا ہماری کیا جرات کہ ہم اللہ کے پسندیدہ بندوں اور اخلاص اور للہیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز اصحاب کے بارے میں ادب واحترام کے سوا کسی اور پیرائے میں بات کریں۔ قیادت کی سطح پر منتشر ذہنی اور سطحیت کا ایسا مظہر قوم نے کم ہی دیکھا ہوگا جیسا عمران خان کی صورت میں ہمیں درپیش ہے۔ عمران خان کے لیے بہتر ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر جو مرضی کہیں لیکن وہ معاملات جن میں اسلام، اسلامی روح اور اسلامی شخصیات جاگزیں ہیں لاپروائی سے اجتناب کریں۔ آپ ؐ اور آپ ؐ کے اصحاب کے ساتھ انتساب ایک مسلمان کے پاس اس کے سوا کیا زاد راہ ہے۔ کوئی اس پر ہاتھ ڈالے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔