تھپڑ سے نہیں پیار سے ڈر لگتا ہے

240

 

 

یہ پیپلزپارٹی کے تیسرے دور اقتدارکی بات ہے‘ اگرچہ کوئی بھی حکومت یہ بات تسلیم نہیں کرتی کہ اسے اقتدار ملا ہے‘ سب یہی کہتے ہیں کہ حکومت ملی ہے اختیار اور اقتدار نہیں ملا‘ بہر حال یہ ایک بالکل الگ بحث ہے‘ پیپلزپارٹی کے تیسرے دور میں یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے‘ اور جناب آصف علی زرداری سیاسی لحاظ سے ایک طاقت ور شخصیت تھے‘ جس بھی جماعت کی حکومت ہو‘ قومی اسمبلی میں سکہ اسی کا چلتا ہے‘ کسے پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لیے پاس جاری کرنا ہے اور کسے نہیں کرنا‘ پریس گیلری ہو یا مہمانوں کے لیے پاس جاری کرنے کا معاملہ‘ قومی اسمبلی کے اسپیکر اس معاملے میں ہر لحاظ سے باختیار ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے‘ اسپیکر کے پاس یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ اجلاس میں دی جانے والی کوئی رولنگ بھی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی۔
جس طرح کا واقعہ فیصل آباد میں ایک شادی کی تقریب میں ہوا‘ جس میں صحافی سمیع ابراہیم وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنے‘ اب تو یہ ہوا کہ ایک وفاقی وزیر پر الزام لگا کہ اس نے ایک اینکر پرسن‘ اخبار نویس کو تھپٹر رسید کیا‘ پیپلزپارٹی کے تیسرے دور میں قومی اسمبلی کے گیٹ کے سامنے بھی ایک واقعہ ہوا تھا‘ جس کا الزام سمیع ابراہیم‘ شعیب بھٹہ اور ظفر اللہ خان پر لگا تھا‘ تب مدعی افتخار گیلانی تھے‘ افتخار گیلانی مسلم لیگ(ن) میں بھی رہے‘ پیپلزپارٹی میں بھی رہے‘ اور مسلم لیگ (ق) میں بھی رہے‘ قومی اسمبلی میں منتخب ہوکر آئے تھے لہٰذا کابینہ میں بھی رہے انہوں نے بطور مدعی اس وقت کے اسپیکر یوسف رضا گیلانی کی خدمت میں اپنا مقدمہ پیش کیا کہ تین جرنلسٹ‘ شعیب بھٹہ‘ سمیع ابراہیم اور ظفر اللہ خان نے ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی ہے اور انہیں ان تینوں سے جان کا خطرہ ہے‘ ان کی شکایت پر یوسف رضا گیلانی نے ان تینوں پر پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی کوریج کے لیے پارلیمنٹ ہائوس آنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ سمیع ابراہیم‘ ظفر اللہ خان اور شعیب بھٹہ ان دنوں جناب آصف علی زرداری کے بہت قریب تھے‘ وقت یوں ہی گزرتا رہا‘ سمیع ابراہیم امریکا چلے گئے‘ وہ امریکی وزارت خارجہ کے اہم عہدیدار اور سفارت کار رچرڈ ہالبروک کے پریس سیکرٹری بھی رہے‘ چار پانچ سال ہوئے ہیں کہ وطن واپس آئے ہیں‘ ظفر اللہ خان ان دنوں پارلیمنٹرین کے لیے تربیتی پروگرام کرنے والے ادارے پیپس کے سربراہ ہیں‘ یہ ادارہ وزارت پارلیمانی امور کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے‘ شعیب بھٹہ اپنا خبار شائع کرتے ہیں‘ اور سمیع ابراہیم نجی ٹی وی میں کانٹینٹ شعبے کے انچارج ہیں‘ بہر حال اس واقعے پر یوسف رضا گیلانی نے بطور اسپیکر فیصلہ لیا اور ان تینوں کے لیے جاری پاس منسوخ کردیے‘ ان کے لیے پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے بہت عرصہ تک بند رہے‘ لیکن اب خدا کی شان دیکھیں‘ ظفر اللہ خان ایک ایسے ادارے کے سربراہ ہیں جو پارلیمنٹیرین کی پارلیمانی امور کی تربیت کا کام کرتا ہے‘ سمیع ابراہیم نجی ٹی وی میں کانٹینٹ شعبے کے انچارج ہیں اس شعبے کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ جو کچھ بھی بولا جائے‘ نشر کیا جائے اس کی زبان و بیان معیار کے مطابق ہونی چاہیے‘ میڈیا کے کسی بھی ادارے میں یہ بہت ہی اہم شعبہ ہوتا ہے اور ہے‘ یوں وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ کیا کہنا چاہیے اور کیسے ادا کرنا چاہیے‘ اس لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ سمیع ابراہیم نے جو کچھ بھی کہا ہوگا‘ اپنے ادارے میں خود کو ملنے والی ذمے داری کو مد نظر رکھ کر ہی کہا ہوگا‘ جو کچھ افتخار حسین گیلانی کے ساتھ ہوا تھا وہ بھی ناخوشگوار واقعہ تھا اور اب جو کچھ سمیع ابراہیم کے ساتھ ہوا اس کی کسی بھی قیمت پر اور کبھی بھی حمایت نہیں کی جاسکتی یہ بھی ناخوشگوار واقعہ ہی ہے۔
افتخار گیلانی کے ساتھ جو بھی ہوا‘ اس کے پیچھے بھی ایک سوچ تھی‘ ایجنڈا تھا‘ اور اب جو کچھ ہوا ممکن ہے کہ اس کے پیچھے بھی کوئی سوچ اور ایجنڈا ہوگا تاہم ایک بات اور فرق ضرور ہے کہ افتخار گیلانی نے بطور پارلیمنٹیرین وہ راستہ اختیار کیا جس میں انہیں کسی بد مزگی کے بغیر پارلیمانی اور قانونی تحفظ ملا‘ افتخار حسین گیلانی وکیل بھی ہیں‘ لہٰذا انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے قانون کے علم کا درست استعمال کیا‘ اور بہترین راستہ چنا‘ فواد حسین چودھری بھی وکیل ہیں‘ ان کے انتہائی قریبی عزیز جناب جسٹس افتخار حسین چودھری‘ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے جج رہے ہیں‘ فواد حسین چودھری نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے‘ دونوں کے تعلق کے بارے میں ملک کے ایک انتہائی سینئر وکیل اور تحریک انصاف کے ہمدرد حامد خان نے اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا ہے۔ فواد چودھری‘ سمیع ابراہیم سے بدلہ لینے کے لیے وہ راستہ اختیار نہیں کرسکے جو افتخار حسین گیلانی نے اختیار کیا تھا‘ یہ راستہ شادی کی تقریب میں اختیار کیے جانے والے راستے سے بہت بہتر تھا‘ اب کیا ہوا ہے کہ فواد حسین چودھری کے خلاف فیصل آباد کے ایک تھانہ منصور آباد میں شکایت درج کرائی گئی ہے لیکن پولیس نے شکایت درج کرنے کے بعد مزید کچھ نہیں کیا‘ تاہم جہاں فواد چودھری نے یہ شکایت کی
ادارے کام ہی نہیں کر رہے وہاں انہوں نے یہ الزام فیصل آباد کے تھانہ منصور آباد کی پولیس کو نہیں دیا‘ وہاں کی پولیس نے تو کام کیا ہے کہ سمیع ابراہیم کی شکایت پر کارروائی آگے ہی نہیں بڑھائی‘ یہ طرز عمل کیا ہے اور فواد چودھری اس پر کیوں خاموش ہیں‘ رد عمل کیوں نہیں دے رہے کہ پولیس کو اپنا کام کرنا چاہیے۔
فواد چودھری صاحب کی خدمت میں عرض ہے ادارے کام نہیں کر رہے تو جناب کی بچت ہے‘ کام شروع کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ یہ آپ جناب نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جگہ کھڑے ہوکر سوچیں‘ جنہیں یہی تو گلہ ہے ادارے کام کر رہے ہیں ہماری نظر میں دونوں غلطی پر رہے‘ اب فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ وہ شکایت لے کر متعلقہ اداروں کے پاس پہنچے ہیں‘ جن میں ایک ادارہ ایف آئی اے کا بھی ہے جس کے سربراہ بشیر میمن کے سامنے اتفاق سے یہ واقعہ ہوا ہے اور عینی شاہد بھی ہیں‘ فواد چودھری کا موقف ہے کہ ادارے کام ہی نہیں کرتے لہٰذا ان کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ یوں ایک وفاقی وزیر اپنی ہی حکومت کی کارگزاری پر سوال اٹھار ہے ہیں‘ یہ سوال نہ اٹھائیں کیونکہ پولیس جب کام شروع کرتی ہے تو پھر تازہ واردات نہیں پرانی تمام وارداتوں کی برآمدگی کراتی ہیں‘ پنجاب پولیس تو ویسے ہی بہت مشہور ہے‘ آپ جناب وکیل بھی ہیں‘ وزیر بھی ہیں اور دوسروں کی نسبت باخبر شہری بھی ہیں‘ لہٰذا یہ بات ذہن میں رکھیں جن اداروں میں کام ہورہا ہے اور جن میں کام نہیں ہورہا‘ اس کا فائدہ فی الحال آپ ہی کو مل رہا ہے سمیع ابراہیم کو تو کچھ نہیں ملا‘ سوائے ایک تھپڑ کے‘ ممکن ہے کہ سمیع ابراہیم نے دل میں کچھ ٹھان لیا ہو اور وقت کا انتظار کر رہا ہو‘ یقینا یہی بات ہے۔ جناب فواد چودھری صاحب‘ اسٹیج تھیٹر کا ایک اصول ہے جگت مارنا کمال نہیں‘ کیونکہ جگت کا جواب ضرور آتا ہے سو اصل بات یہ ہے کہ جگت کا جواب سہہ لینا اور برداشت کرنا ہی بڑی بات ہوتی ہے‘ جگت کی واپسی کا ہمیں بھی انتظار ہے۔