دنیا میں پاکستانی کم ہی نیک نام ہیں۔ بڑی وجہ ہمارے حکمران ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو چوروں، ڈاکوئوں اور خالی خزانے کا ایسا شور مچایا کہ لگتا تھا پاکستان میں سب چور اور لٹیرے ہی بستے ہیں۔ اندرون ملک تو یہ رونا پیٹنا تھا ہی بیرون ملک انہوں نے یہ واویلا کیا کہ پاکستان کے چور اور لٹیرے حکمران ملکی وسائل ہی نہیں بیرونی قرضے بھی کھا جاتے ہیں۔ ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ دنیا جو پہلے ہی پاکستان سے متنفر کردی گئی ہے مزید پختہ ہوگئی کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر کوئی دائو لگائے بیٹھا ہے، ہر وقت گھات میں ہے، ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کی جیب میں ہے۔ ہر طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ پاکستان سے خیر اٹھ گیا ہے۔
پاکستان میں سب چور چور
کوئی چوری کرے خزانے کی
کوئی آنے یا دوآنے کی
کوئی مرغی چور کوئی انڈہ چور
کوئی بڑا چور کوئی چھوٹا چور
کوئی رانی جی کا سالا چور
کچھ دن سے وزیراعظم عمران خان نے اہل پا کستان کو بدنام کرنے کی ایک نئی طرز ایجادکی ہے وہ یہ کہ ’’پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ پاکستانی ٹیکس چور ہیں۔ صرف ایک فی صد پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں۔ جب ٹیکس اکٹھا نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا‘‘۔ اس پر ایک عزیز نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔ کہتے ہیں ’’صبح اٹھا تو موبائل اسکرین پر بینک کی طرف سے میسج تھا۔ آپ کی تنخواہ اکائونٹ میں آگئی ہے۔ رقم دیکھی تو تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کاٹ لیا گیا تھا۔ ناشتہ کرنے بیٹھا تو حساب لگایا ناشتے کی میز پر موجود انڈہ، مکھن، ڈبل روٹی، جام جیلی، دودھ، چائے کی پتی ہر چیز پر میں سیلز ٹیکس دے چکا ہوں۔ پٹرول پمپ پہنچا۔ بائیک میں پانچ سو کا پٹرول ڈلوایا جس میں 170 روپے حکومت کو ٹیکس کی مد میں دیے۔ دفتر پہنچا۔ سارے دن کام میں جتا رہا۔ دفتر سے نکل ہی رہا تھا کہ بیگم کا میسج آگیا۔ راشن کی فہرست تھی۔ لکھا تھا آتے ہوئے لے آنا۔ ایک اسٹور پر پہنچا۔ سامان نکلوایا۔ بل دینے کا وقت آیا تو پتا چلا کہ پچھلے مہینے سے بیس تیس فی صد زیادہ بل بنا ہے۔ ہر چیز پر 17فی صد سیلز ٹیکس۔ موبائل میں سو روپے کا ایزی لوڈ کروایا۔ حکومت نے 26روپے ٹیکس کاٹ لیے۔ گھر پہنچا۔ بجلی اور گیس کے بل آئے ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ سے کہیں زیادہ۔ بجلی کے بل پر کے ای چارجز، الیکٹری سٹی ڈیوٹی، پی ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، میٹر رینٹ، گورنمنٹ اینڈ بینک چارجز اور نہ جانے کون کون سے جانے انجانے ٹیکس لگے تھے جو مجھے بھرنے تھے۔ اوور بلنگ اس کے علاو۔ کھانا کھا کر فارغ ہوا تو بیگم نے بتا یاکہ بچوں کی فیس کا وائوچر آیا ہوا ہے۔ اس میں بھی ٹیکس۔ کل ماں جی کی اسپتال سے چھٹی ہورہی ہے۔ اسپتال کے بل کی ادائیگی کرنی ہے اس میں بھی ٹیکس، دوائیں خریدنی ہیں جن کی قیمتیں تین سو فی صد بڑھ گئی ہیں ان پر بھی ٹیکس۔ بیگم سے پینے کے لیے پانی مانگا۔ فلٹر واٹر اس پر بھی ٹیکس۔ اسکول وین کی فیس اور اس میں اضافے کا مطا لبہ ورنہ… موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی۔ پنکچر لگانے والے کیمیکل پر بھی ٹیکس۔ بغیر ہیلمٹ پولیس نے چالان کردیا۔ جرمانہ بھرا اس میں بھی ٹیکس۔ آئندہ چالان سے بچنے کے لیے ہیلمٹ خریدا اس پر بھی ٹیکس۔ اس کے علاوہ ٹول ٹیکس، دکانوں پر ٹیکس، گھروں پر ٹیکس، زمینوں پر ٹیکس، موٹر سائیکلوں، کاروں اور ہر طرح کی وہیکل پر ٹیکس، بلب پر ٹیکس، پنکھے پر ٹیکس، اے سی پر ٹیکس۔ اس ملک میں پندرہ کروڑ موبائل موجود ہیں اس کا مطلب ہے پندہ کروڑ لوگوں نے ٹیکس ادا کیا ہے۔ آپ بچے کو ایک ٹافی بھی دلاتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس، یہ ہیں وہ ٹیکسز جو کروڑوں پاکستانی روزانہ ادا کرتے ہیں چا ہے وہ بھکاری ہی کیوں نہ ہو۔ اس پر بھی وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پاکستان کے عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ 42قسم کے ان ڈارکٹ ٹیکسز ہیں جو پاکستان کے عوام ادا کرتے ہیں۔ یہ ٹیکس ادا کرنے والے ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں اور روزانہ دیتے ہیں۔ جینے پر ہی نہیں مرنے پر بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ ان بیالیس ٹیکسوں کے علاوہ ریاست چاہتی ہے کہ فائلرز براہ راست ٹیکس بھی دیں۔
بجٹ تباہ حال عوام کی مزید تباہی کا نہیں ہلاکت کا بندوبست ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ناداری اور تنگ دستی کے گڑھے میں گرادیا گیا ہے۔ تمام ٹیکسز کا بوجھ عوام کی گردن پر ہے۔ گردن ٹوٹے یا رہے۔ حکومت کا مسئلہ نہیں۔ تبدیلی کے جس خوش کن فریب میں عمران خان کو ووٹ دیے گئے تھے وہ تبدیلی بجٹ کی صورت تباہی لیے ہر گھر میں داخل ہوچکی ہے۔ وہ اشیا جو زندگی کی ضرورت ہیں وہ یاتو دسترس سے باہر ہوجائیں گی یا پھر ان کے استعمال میں ٹھیک ٹھاک کمی کرنا ہوگی۔ یہ اشیا سامان تعیش نہیں ہیں یہ چینی ہے، گھی اور تیل ہے، گوشت ہے، آٹا، چاول دالیں ہیں۔ سیمنٹ ہے، سریا ہے اینٹیں ہیں۔ اس گمان میں مت رہیے گا کہ آپ کے پیٹ کاٹنے اور دن رات ٹیکس دینے کے صلے میں حکومت آپ کو کچھ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہتی ہے تو یہ آپ کی بھول ہے۔ حکومت آپ کو بدلے میں کچھ نہیں دے رہی بلکہ حکومت نے تعلیم کا بجٹ کم کردیا ہے۔ صحت کا بجٹ کم کردیا ہے۔ عوام کی فلاح اور بہبود کے تمام منصوبے عملی طور پر ختم کردیے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کرتے پھر رہے ہیں۔ دن رات زور دے رہے ہیں کہ عوام ٹیکس دیں۔ وہ خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں، ملا حظہ فرمائیے۔ 2017 میں وزیراعظم عمران خان نے صرف 1لاکھ 3ہزار روپے ٹیکس ادا کیا یعنی ماہانہ 8ہزار 583 روپے۔ 2016 میں عمران خان نے جو ٹیکس ادا کیا وہ 1لاکھ 59ہزار 609روپے ہے یعنی ماہانہ 13ہزار 300روپے۔ دنیا بھر میں لوگ اگرکم ٹیکس ادا کرتے ہیں تو وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی آمدنی کم یا اتنی ہی ہے جتنا وہ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ اس پر ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اتنی کم آمدنی میں آپ اس طرز زندگی کی وضاحت کریں جو آپ گزار رہے ہیں۔ اتنی کم آمدنی میں آپ ایسی شاہانہ زندگی کیسے گزار رہے ہیں۔ آپ کے گھر میں اتنے ملازم ہیں اتنی کم آمدنی میں ان کی تنخواہیں کیسے ادا کرتے ہیں۔ آپ کے گھر میں آپ کے علاوہ کتے بھی ہیں ان کی خوراک پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے ادا کرتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں قیمتی گھڑی ہے، مہنگا موبائل ہے، جدید ماڈل لیپ ٹاپ ہے بتائیں آپ نے کیسے خریدے۔ اتنی قلیل آمدنی میں یہ محل جیسا گھر کیسے چلاتے ہیں۔ اتنا بڑا سوئمنگ پول کیسے مینٹین کرتے ہیں۔ کون ہے جو وزیراعظم سے یہ سوالات کرسکے۔ پاکستانی عوام کو ٹیکس چور کہنے سے پہلے عمران خان اپنے گریبان میں جھانکیں اپنی پارٹی کے لیڈروں، مشیروں، وزیروں، حوالیوں موالیوں اور اپنے ارد گرد موجود جرنیلوں، ججوں، اہل پارلیمنٹ اور بڑے بڑے سرمایہ داروں سے پوچھیں کہ وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ ریاست مدینہ میں ظالمانہ ٹیکس نہیں ہوتے۔ عوام کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہو تو حکمران کے پیٹ پر تین پتھر بندھے ہوتے ہیں۔ لیکن ریاست مدینہ کی مثال دینا درست نہیں۔ ریاست مدینہ عمران خان کا سیاسی نعرہ ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کا ہتھیار