فطرت نہیں بدلتی

239

ایک وکیل نے سماعت کے دوران دلائل سے متفق نہ ہونے پر جج کا سر پھاڑ دیا۔ وار اتنا شدید تھا کہ سر تربوز کی طرح پھٹ گیا اور خون کا فوارہ اُبلنے لگا، اگر فوری طور پر طبی امداد فراہم نہ کی جاتی تو زیادہ خون بہنے کی وجہ سے جج صاحب فریادی بن کر اللہ کی عدالت میں پہنچ گئے ہوتے۔ وکلا تحریک کے دوران وکلا حضرات معطل چیف جسٹس افتخار چودھری کو یہ باور کراتے نہیں تھکتے تھے کہ ان کے جاں نثار بے شمار ہیں سو، وہ ڈٹے رہیں۔ نظام عدل کو بچانے کے لیے حکومت کو گھٹنے ٹیکنا ہی پڑیں گے، انسان کتنا بھی بااختیار اور طااقتور ہو المیہ یہ ہے کہ اگر وہ ایک بار گھٹنے ٹیک دے تو پھر گھٹنے ٹیکنا اس کی فطرت بن جاتی ہے اور فطرت ایسی خطرناک اور مہلک بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ بطخ کے بچے کو پانی سے کتنا ہی دور رکھا جائے مگر وہ جب بھی پانی میں اترے گا تیرنے لگے گا کہ یہی اس کی فطرت ہے اور فطرت بدلی نہیں جاسکتی۔
ہاں تو ہم کہہ رہے تھے حکمران ایک بار گھٹنے ٹیک دے تو پھر… گھٹنے ٹیکنا اس کی فطرت بن جاتی ہے۔ اس اصول سے سب سے زیادہ فائدہ وکلا نے حاصل کیا ہے جب بھی کسی وکیل کو عدالت نے سزا سنائی ہے، بار کونسلوں نے وکلا کے لشکر جرار کی صف بندی کرکے اتنا شور شرابا کیا ہے کہ سماعتیں ختم ہوگئیں۔ وکلا تحریک نے چیف جسٹس افتخار چودھری کی ملازمت تو بحال کرالی مگر انصاف بے حال ہوگیا۔ وکلا کی مرضی اور منشا کے بغیر کوئی جج اپنے منصب پر تادیر قائم نہیں رہ سکتا سو، اپنی عزت اور بچوں کا مستقبل بچانے کے لیے جج حضرات گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور اب تو عادی ہوگئے ہیں۔ حالات اور واقعات بتارہے ہیں کہ نظام عدل وکلا کی جورو بن چکا ہے اور غریب کی جورو سب کی بھابی ہوتی ہے۔ غریب کی جورو کو عزت و احترام دلانے کا واحد حل یہ ہے کہ (معذرت کے ساتھ) نظام عدل کو کسی مصطفی کھر کے سپرد کردیا جائے۔ اہل وطن یہ بات بھولے نہیں ہوں گے کہ جب مصطفی پنجاب کے گورنر تھے تو پولیس نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کا حربہ استعمال کیا تھا اور گورنر پنجاب نے اس ہڑتال کو ناکام بناکر پولیس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا اگر نظام عدل کے چودھری بھی شہر پنجاب کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت کرلیں تو وکلا کی ہڑتال کا حربہ ناکارہ ہوجائے گا۔ وکیل صاحب نے جس جج کے سر کا کچومر نکالا تھا اس نے وکیل کا جنازہ نکال دیا، وکیل کو لگ بھگ انیس سال قید کی سزا اور دو لاکھ روپے کے جرمانے کی سزا سنادی گئی۔ سزا جرمانے تک رہتی تو کوئی بات نہ تھی، ادا کردی جاتی یا معاف کرالی جاتی مگر مسئلہ قید بامشقت کا ہے اگر وکیل صاحب نے یہ سزا بھگت لی تو پھر؟ بار کونسل کو کون بھگتے گا۔ بار کونسل اپنا بار کس کے سر پر ڈالے گی۔ وکلا ججوں کے گریبان چاک کریں، سر پھاڑیں، عدالتوں میں توڑ پھوڑ کریں یا تالے لگائیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی جاسکتی کہ یہ سب ان کا حق ہے۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عدالت کو گمراہ کرنا، تاخیری حربے استعمال کرنا اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں حائل کرنا بھی وکلا کا حق ہے۔ ایل ایل بی کی سند حاصل کرنے کے بعد ان کا ہر فرمان مستند قرار پاتا ہے۔ مذکورہ سزا کے خلاف وکلا برادری میدان میں اُتر آئی ان کا مطالبہ تھا کہ وکیل کی سزا معطل کی جائے، سزا سنانے والے جج کو معطل کیا جائے تا کہ دیگر ججوں کو عبرت ہو اور وہ وکلا کو سزا سنانے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہ کریں۔ بعض وکلا کا کہنا ہے کہ لڑائی دو فریقوں کے درمیان ہوتی ہے اس لیے ایک فریق کو سزا دینا توہین انصاف نہیں مگر وکیل کو سزا سنا کر اُلٹی گنگا بہائی گئی ہے اگر وکلا کی دلیل کو مان لیا جائے تو پھر نظام عدل کا کیا جواز ہے؟ وکلا اور عدالتوں کا وجود تو بے معنی ہوجاتا ہے، وکلا یہ بھی فرماتے ہیں کہ جج نے وکیل کو مشتعل کیا تھا سو، آپے سے باہر ہونا ایک فطری عمل ہے جو قابل درگزر ہے۔ ان بندہ پروروں کو کون سمجھائے کہ ہر جرم اشتعال ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔یہ کیسا المیہ ہے کہ وکلا برادری عدلیہ کو یہ باور کرانے پر کمربستہ ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ہی مجرم ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ وکلا قاتل کو پھانسی کی سزا دلا کر بغلیں کیوں بجاتے ہیں!!!۔ زیادہ پرانی بات نہیں ملتان کی عدالت میں ایک ملزم نے جج کے ریمارکس پر جوتا اچھال دیا تھا اس جرم میں اسے اٹھارہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جج کی سمت جوتا پھینکنا جرم ہے اور اس کی سزا اٹھارہ سال ہے تو جج کا سر پھاڑنا تو اس سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ اس کی سزا پر واویلا کیوں ہے؟ انصاف کا یہ دہرا معیار نظام عدل کے لیے نیک شگون نہیں۔ کاش! کوئی اس سوال پر سوچنے کی زحمت گوارا کرتا۔