ہم نہیں تم سو رہے ہو

224

قیام پاکستان سے تا دمِ تحریر، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر وجہ تنازع بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے خطے میں بے پناہ کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بھارت پاکستان سے کئی گناہ بڑا ہے اور وہ جارحانہ عزائم بھی رکھتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتیوں کو بڑھائے لیکن عجب بات یہ ہے بھارت اسی کشمیر کے تنازع کا سہارا لے کر اسلحے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ بھارت کا جنگی جنون پاکستان کے لیے تو ہے ہی ایک سوالیہ نشان، لیکن بھارت کی وجہ سے چین جیسا امن پسند ملک بھی اپنا دفاع بڑھانے پر مجبور ہے۔ بھارت نہ صرف پاکستان سے کشید گی کا حوالہ دے کر دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے لیے جنگی صلاحیت بڑھانا ضروری ہے بلکہ وہ چین کا حوالہ دے کر بھی اپنی جنگی صلاحیتوں کا جواز تلاش کرتا رہا ہے۔ وہ ہر آنے والے وقت میں اپنی عسکری طاقت کو بڑھاتا جارہا ہے جو اس پورے خطے کے لیے اور خاص طور سے پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
بظاہر بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی ایسا تنازع نہیں جو وجہ جنگ بن سکے لیکن کشمیر ایک ایسا اشو ہے جس کی وجہ سے ماضی میں بھی کئی بڑی بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور حال میں بھی جنگ کے بادل چھاجانے کے بعد برستے برستے رہ گئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہوجائے تو نہ صرف پاک بھارت کشید گی میں کمی آجائے بلکہ پاکستان کا وہ بجٹ جو دفاع میں خرچ ہوتا ہے اس میں سے ایک کثیر رقم ملک کے ترقیاتی کاموں میں صرف ہونے کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
کشمیر پر دنیا پاکستان کے موقف کی حمایت کرتی رہی ہے اور اس کے حل کے سلسلے میں دنیا کے جس جس فورم پر بھی پاکستان نے آواز اٹھائی ہے اسے بین الاقوامی سطح پر دنیا کے اکثر ممالک نے سراہا بھی ہے اور حمایت بھی کی ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں عالمی سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ ترکی کے صدر نے پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دیرینہ تنازع ہے جس کا حل ناگزیر ہے۔
اسی کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان نے بھی کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ایسا متنازع مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ہر وقت جنگ کا خطرہ رہتا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارے عوام کے لیے اور خاص طور سے وہ کشمیری جو پاکستان کے کشمیر میں آباد ہیں اور ایک دوسرے سے دینی اور خونی رشتوں میں شیر و شکرہیں، ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ وہ کشمیر جس پر بھارت کا قبضہ ہے، وہاں کے مسلمانوں اور ان کے عزیزوں کو کوئی اذیت پہنچے۔ بھارت نے وہاں ظلم و ستم کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے وہ پاکستان کے کشمیریوں کو کسی طور گوارہ نہیں جس کی وجہ سے بھی بہت سارے رد عمل دیکھنے میں آتے رہے ہیں اس لیے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے اس وقت تک یہ کہنا کہ دونوں ممالک کی کشیدگی میں کمی آجائے گی، مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اس لیے اس فورم کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے اس سلگتے مسئلے کے حل کے لیے آواز اٹھائے۔ یہ مسئلہ حل ہوجائے تو پاک بھارت کشیدگی کافی حدتک کم ہو جائے گی جس کی وجہ سے ہم اپنے دفاعی بجٹ میں بھی کمی لاسکتے ہیں اور اپنی اقتصادی حالت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ موقف سنا بھی گیا اور سراہا بھی گیا۔
دنیا کے جس فورم میں بھی مسئلہ کشمیر اٹھایا جاتا ہے وہاں ایک بات بہت ہی تسلسل سے کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے اس مسئلے کو ’’اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے‘‘۔ دنیا کا کوئی ملک بھی ایسا نہیں جس نے اسی جملے کو بار بار نہ دہرایا ہو۔ یہ تکرار اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ اقوام عالم میں قراردادوں کی صورت میں موجود ہے۔ یعنی یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو دنیا کے لیے نیا ہو اور جس پر ایک نئے انداز اور نئے سرے سے غور و فکر کی ضرورت ہو۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں ستر برس سے کسی مسئلے کو حل کرائے جانے کے سلسلے میں کوئی قرارداد موجود ہے تو وہ مسئلہ تاحال حل کیوں نہیں کیا جا سکا؟۔ اس کی یقینا کئی وجوہ رہی ہوںگی لیکن کیا ان وجوہ کو دنیا کا کوئی اور فورم حل کرے گا یا اس مسئلے کو حل کرنا بہر صورت اقوام متحدہ ہی کا کام ہے۔ دیگر جو بھی ایسے عذر جو اس مسئلے کی راہ میں رکاوٹ ہیں، جب ان کو بھی دور کرنا اقوام متحدہ ہی کا کام ہے تو پھر اس معاملے میں مسلسل تاخیر ایک مجرمانہ غفلت کے سوا اور کچھ نہیں جس کو سامنے رکھ کر یہ بات کہنے میں کوئی جھجک، ہچکچاہٹ یا شرم نہیں کہ اقوام عالم کا جو بھی کردار ہے وہ دہرے چہرے والا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف مسلمانوں اور اسلام سے نفرت اور تعصب کے سوا اور کچھ نہیں۔ مسئلہ کشمیر کا ہو یا فلسطین کا، جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، دنیا نے اُس جانب سے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں لیکن اگر مسلمانوں کی جانب سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و درندگی کے رد عمل کے طور پر کوئی ایکشن سامنے آتا ہے تو اس کو ایک سنگین اشو بنا کر مسلمان ممالک پر نہ صرف بموں کی بارش کردی جاتی ہے بلکہ ان پر قبضہ بھی کر لیا جاتا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بجا فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ بات تو درست ہے لیکن کیا تالی ایک ہاتھ سے بھی بجائی جا سکتی ہے؟۔ پاکستان متعدد بار بات چیت کی پیشکش کرتا رہا ہے لیکن ہر مرتبہ بھارت بات چیت سے بھاگ نکلتا ہے۔ کیا یہ صورت حال اقوام عالم کے علم میں نہیں۔ کیا وہ بھارت کی ہٹ دھرمی، ضد اور ہٹ نہیں دیکھ رہے؟، ایسی صورت میں دنیا کا رد عمل بھارت کے خلاف کیوں سامنے نہیں آتا۔
یہ سب کیوں ہے، مسلمان ہر جگہ ذلیل و رسوا کیوں ہو رہے ہیں۔ دنیا ان کے گرد اپنا دائرہ تنگ کیوں کیے جارہی ہے اور ان پر عرصہ حیات کیوں تنگ ہوتا جارہا ہے اس پر پوری دنیا کے مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ضعیف ضعیف ہوتا ہے اور توانا توانا، یہ ممکن نہیں کہ کسی نحیف کو کسی تنومند پر فوقیت حاصل ہوجائے۔ برس ہا برس کی غلامی نے دنیا کے سارے مسلمانوں کو ذہنی طور پر بھی غلام بنا کر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے ’’آزادانہ‘‘ زندگی کا حسین تصور دل و دماغ سے دھل گیا ہے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے ایک چھوٹے سے پیراگراف کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا جس میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت ہے۔ راوی رقم طراز ہے کہ کسی نے قبرستان کے مردوں سے بڑی حسرت کے ساتھ کہا کہ تم سب تو بڑے سکون کی نیند سو رہے ہوگے تو جواب آیا، ’’سو ہم نہیں رہے، سو تم رہے ہو، ہم تو سونے کی سزا کاٹ رہے ہیں‘‘۔ اگر یہ جملے بھی ہمیں بیدار نہ کرسکے تو ہم دنیا کے کسی بھی فورم پر کتنا ہی چیخیں چلائیں، آہ و زاریاں کریں، رحم رحم پکاریں اور اپنی مظلومیت کا اظہار کریں، ہماری آواز نقارخانے میں توتی کی آواز سے زیادہ اہمیت اختیار نہیں کر سکتی لہٰذا ضروری ہے کہ بیدار ہوجائیں اور اپنے آپ کو مضبوط بنائیں یہی واحد حل ہے ورنہ ہماری کوئی فریاد پتھروں کو نہیں پگھلا سکتی کیوںکہ اہل کفر وہ پتھر ہیں جن سے پانی کے نہیں آگ و خون کے چشمے پھوٹا کرتے ہیں۔