بابا الف کے قلم سے
میرے پاکستانیو !رات بارہ بجے تم سے خطاب کی تکلیف اس لیے اٹھائی ہے، میں سونے جارہا تھا کہ پنکی بیگم نے تسبیح گھماتے ہوئے حکم دیا’’شبھ گھڑی ہے، اس وقت بلائیں نکلتی ہیں۔ جائوجاکر قوم کو بجٹ کے بارے میں بتائو ‘‘۔ میرے پاکستانی بھائیو آپ سے یہ کہنا ہے کہ اس بجٹ کو زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔بجٹ وجٹ کچھ نہیں ہوتا۔اس کا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔بجٹ سے کبھی غریبوں کے دن نہیں پھرتے۔اس بجٹ سے بھی ایسا ہی ہوگا۔میں تو بجٹ پیش کرنے کے حق میں ہی نہیں تھا۔حساب کتاب چوروں سے مانگا جاتا ہے۔حساب کتاب چور دیتے ہیں۔جو حکمران کرپٹ ہوتے ہیں ملک لوٹتے ہیں،پیسہ باہر بھیجتے ہیں،قوم کے سامنے بجٹ پیش کرنا ان کی ضرورت ہوتا ہے۔ہم نے نیب کے تعاون سے ایسے تمام چوروں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا ہے۔اس وجہ سے گزشتہ دس ماہ سے ملک کرپشن اور چوری چکاری سے محفوظ ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پٹرول سستا ہوگیا ہے،ڈالر سستا ہوگیا ہے،دوائیں اور روٹی سستی ہوگئی ہے۔حج سستا ہوگیا ہے۔میری بات آپ کو غلط معلوم ہورہی ہوگی لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ قیمتیں آپ کو کم اوراشیا سستی معلوم ہوں گی۔میرا آپ سے وعدہ ہے۔
سوشل میڈیا کے دانشوروں نے، دانش جن سے ورے ورے رہتی ہے اور اپوزیشن کے چوروں ڈاکوئوں نے شور مچایا ہوا ہے معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا ہے۔مہنگائی نے غریب کا جینا حرام کردیا ہے۔میں ان سے کہتا ہوں ذرا بازاروں میں نکل کردیکھو ہجوم ہی ہجوم نظر آئے گا۔رمضان میں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔میرے پا کستانیو،آج میں آپ کو ایک بات بتا تا چلوں کھوا کا ندھے یا مونڈھے کو کہتے ہیں۔پیرنی بیگم اسے شانہ بھی کہتی ہیں۔ بیگم ہی کا قول زرین ہے کہ غریبوں کے کا ندھے اللہ نے چھلنے کے لیے اور امیروں کے کاندھے بیگم کا ہاتھ رکھنے کے لیے بنا ئے ہیں۔بیوی چا ہے پہلی ہو دوسری یا تیسری۔اسی طرح شوہر چاہے پہلا ہو یا دوسرا۔کاندھے کی حیثیت پر فرق نہیں پڑتا۔بات معیشت کی ہورہی تھی۔ذرا ہوٹلوں میں جا کر دیکھیں۔ باورچی تھک گئے ہیں کڑ اھیاں بناتے بناتے۔ گا ہکوں کی طلب پوری نہیں ہورہی ہے۔نو سو،ہزار روپے کلو کڑاہی ہے لوگ اسی طرح خرید کر کھارہے ہیں جیسے چوروں ڈاکوئوں کی حکومت میں کھاتے تھے۔تربوز پچاس روپے کلو،سردا گرما سو روپے کلو ہے۔لوگوں کے پاس پیسہ ہے،قوت خرید ہے تو لوگ خرید رہے ہیں نا۔جو کل فقیرتھے وہ آج بھی فقیر ہیں۔آپ گلی میں نکل کر دیکھیں جو فقیر چوروں ڈاکوئوں کی حکومت میں بھیک مانگتے تھے وہی آپ کو آج بھی بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔جو لوگ پہلے بھیک نہیں مانگتے تھے وہ آج بھی آپ کو گلیوں میں صدا لگاتے نظر نہیں آئیں گے۔
میرے پاکستانیو! چور اور ڈاکو کہتے ہیں مجھے حکومت کرنی نہیں آتی۔بجٹ پیش کیا ہے تو اسے اسمبلی سے پاس کرانا بھی ہوتا ہے۔جس کے لیے اپوزیشن سے افہام وتفہیم کا ماحول پیدا کرنا اور اسمبلی میں عددی اکثریت ثابت کرنا ہوتی ہے۔اس موقع پر حالات خوشگوار کرنے کے بجائے عمران خان کہہ رہا ہے کہ چاہے میری جان بھی چلی جائے میں نے انھیں چھوڑنانہیں ہے۔میرے پاکستانیو یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔انھیں پتا ہی نہیں ہے جو مجھے اقتدار میں لائے ہیں وہ اسمبلی میں عددی برتری پیدا کرنا بھی جانتے ہیں۔اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے کوشش کرنا میرا کام نہیں ہے اور نہ ہی اپوزیشن سے محاذ آرائی کرنے سے حکومت جاتی ہے۔حکومت جن وجو ہات کی بنا پر جاتی ہے بائیس سال اپوزیشن میں رہ کر میں نے اس کا اچھی طرح مطا لعہ کیا ہے۔مجھے پتا ہے حکومت کن وجو ہات کی بنا پر جاتی ہے۔ان کا میں نے مکمل بندوبست کر رکھا ہے۔ان سے میں نے خوب بنا کر رکھی ہوئی ہے۔کبھی آپ نے پڈھی کھائی ہے جسے چڈھی بھی کہتے ہیں۔کھا کر دیکھیں بہت مزہ آئے گا۔مجھے بھی آج کل بڑا مزہ آرہا ہے۔کسی کی پڈھی کھانے یا پشت پر سوار ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اس وقت تک نہیں گرتے جب تک پڈھی دینے والا آپ سے خوش ہے۔
میرے پاکستا نیو، مجھے بڑی ہنسی آتی ہے جب میں سنتا ہوں عید کے بعد عوام مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے۔میرے دور حکومت میں ملک میں خوشحال آئی ہے۔پہلے کوئی ہزار ڈالر لے کر جاتا تھا تو اسے ایک لاکھ روپے ملتے تھے۔اب ہزار ڈالر چینج کرائیں ڈیڑھ لاکھ سے بھی اوپر ملتے ہیں۔یہ ترقی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔جہاں تک عوام کے سڑکوں پر نکلنے کی بات ہے تو عوام خود سڑکوں پر نہیں نکلتے۔عوام کو سڑکوں پر نکا لنا پڑتا ہے۔بڑا پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔جلسوں میں کرسیوں کا بل ہی اتنا آتا ہے کہ جہانگیر ترین کی آنکھیں پھٹ جاتی تھیں۔ جہانگیر ترین کا نقصان تو ہم نے حا لیہ بجٹ میں چینی کی قیمت بڑھاکر اور اسے اربوں روپے فائدہ پہنچا کر پورا کردیا ہے۔خیر اب میں اصل بات پر آتا ہوں۔میرے پاکستانیو یہ لیڈر ہوتا ہے جو عوام کو سڑکوں پر نکا لتا ہے۔پاکستان میں لیڈر ہیں کہاں ؟ سب تو ہم نے نیب کی مدد سے جیل میں ڈال دیے ہیں۔اب جو باہر ہیں وہ تو عوام کو سڑکوں پر لانے سے رہے۔جب سے نیب کے چیئر مین کی ویڈیو آئی ہے وہ بھی ہم سے پورا تعاون کررہے ہیں۔اب ان کی طرف سے اس قسم کے بیان سامنے نہیں آتے کہ اگر میں عمران خان کی ٹیم کے لوگوں کو کرپشن پر گرفتار کروںتو دس منٹ میں حکومت گرجائے۔میں نے جسٹس صاحب سے کہاہے ایسی ویڈیوز سے گھبرانا نہیں چاہیے۔یو ٹیوب پر جائو میری آج بھی متعدد پرلطف ویڈیوز مل جائیں گی مگر عوام کو ایسی ویڈیوز میں مزہ نہیں آتا۔
ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا والوں کو بیماری لگی ہے میری پرانی تقریریں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کی کلپس چلانے کی۔اس کے نیچے پٹی چل رہی ہوتی ہے ’’کپتان کا ایک اور یوٹرن۔‘‘میرے پاکستانیو،ان جا ہلوں کو ابھی تک یہ نہیں پتا کہ اب میں کپتان نہیں وزیراعظم ہوں۔جہاں تک وعدوں کا تعلق ہے تو عوام سے ووٹ لینے کے لیے ایسے جذباتی وعدے کرنا پڑتے ہیں۔عوام دیکھ رہے ہیں کہ ہماری حکومت ملک کا بوجھ کم کررہی ہے۔پہلے ملک پر وزیراعظم ہائوس کی منوں ٹنوں بھاری بھرکم بھدی بھینسوں کا بوجھ تھا۔ہم وہ بھینسیں بیچ کرایوان صدر میں بیس لاکھ روپے کا ہلکا پھلکا طوطے کا پنجرہ بنوارہے ہیں۔خیال رکھا گیا ہے کہ ایوان صدر کے اس سودے میں کسی قسم کی کرپشن نہ ہو لہذا پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات میں اشتہار شائع کرائے گئے ہیں۔اسے کہتے ہیں شفافیت۔ایوان وزیراعظم میں بھی طوطے پالنے کا پروگرام ہے۔ بیگم نے بتا یا ہے طوطوں کو سامنے رکھ کر موکل بلانے میں آسانی ہوتی ہے۔یہ کام بنی گالا میں بھی کیا جاسکتا ہے لیکن وہاں خدشہ ہے کہ کتے طوطوں پر بھونکیں گے۔کتوں کی تکلیف بیگم سے دیکھی نہیں جاتی۔بشری بیگم میرے آرام کا بھی بہت خیال رکھتی ہیں۔
میرے پاکستانی بھائیو!آپ کو پتا ہے ملک قرضوں کے بغیر نہیں چلتے۔پہلے کے چور ڈاکو حکمران بھی قرض مانگتے تھے۔مجھے بڑی شرم آتی تھی لیکن جب سے حکومت میں آکر میں نے قرضے مانگنے شروع کیے ہیں تو مجھے پتا چلا یہ تو کام ہی کچھ نہیں ہے۔اس میں شرم کی کیابات۔بس ہاتھ ہی تو پھیلانا پڑتا ہے۔پہلے کے حکمران روتے اور گھگیا تے ہوئے قرضے مانگتے تھے لیکن تحریک انصاف کی حکومت ایسا نہیں کرتی۔ہم قر ضے بھی اکڑ کر مانگتے ہیں۔شنگھائی تنظیم میں آپ نے دیکھ ہی لیا ہوگا۔بڑے بڑے ملکوں کے سربراہان لائن لگا کر کھڑے ہوئے تھے۔نریندر مودی بھی کھڑاتھا لیکن آپ کا وزیراعظم شان سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا۔میرے پاکستانی بھائیو!اب میں اجازت چاہتا ہوں۔گھر جاکر سونا بھی ہے۔مجھے نیند دیر سے آتی ہے۔نیند سے پہلے کچھ لینا بھی پڑتا ہے۔