وسیم اختر بااختیار یا بے اختیار میئر کراچی ؟

259

سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سیاست ہے ، حکمت ہے یا پھر اپنی ناکامی اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ کے ایم سی جو چند سال پہلے تھی اب وہ نہیں رہی۔ اب یہ صرف کھانے پینے والا ادارہ بن چکا ہے۔ اس کے تقریباً 14 ہزار ملازمین جنہیں اب 16 ہزار گنا جارہا ہے، کیا کرتے ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہیے یہ نہ انہیں خود معلوم اور نہ ہی کسی اور کو اس کی خبر ہے۔ منتخب ادوار ہی کیا غیر منتخب ایڈمنسٹریٹرز کے دور کا بھی اس رواں دور کے بلدیہ عظمٰی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس دور میں خلاف قانون مشیر باغات بھی کروڑوں روپے کی فائلوں سے کھیلتے رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان فائلوں کی مدد سے پرانے بل کلیئر کراتے رہے۔ سابق ایڈمنسٹریٹرز ثاقب سومرو کے دور سے کے ایم سی میں لوٹ مار شروع ہوئی اور رواں منتخب دور میں اس کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی۔ بلدیہ عظمیٰ کا موجودہ منتخب دور اس لحاظ سے بھی شرمندگی کا باعث ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پوری کونسل کو ’’لاقانونیت اور کرپشن‘‘ پر مبنی کارروائیوں کا ذمے دار قرار دلانے کے لیے 2016-17 اور 2017-18میں کرائے جانے والے ’’آلودہ کاموں‘‘ کی منظوری منتخب کونسل سے 18 جون 2019 میں حاصل کرلی گئی ہے۔ ترقیاتی کاموں اور فنڈز کے استعمال سے متعلق کئی ایسی قراردادیں بھی منظور کرالی گئیں جن کی تفصیلات موجود ہی نہیں بس ان کے نمبرز ڈال دیے گئے اور ان کی کونسل سے منظوری کرالی گئی تاکہ پوری کونسل کو ذمے دار ٹھیرا کر اصل کرپٹ لوگوں کو بچالیا جائے۔تین اور چار سال پرانے کاموں کی اس قدر تاخیر سے منظوری کی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
بلدیہ کونسل میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی کا کہنا ہے کہ میئر کراچی نے 77 ارب کی کرپشن کی اب اپنی کرپشن چھپانے کے لیے قراردادوں کا سہارا لے رہے ہیں، کراچی میں جو ترقیاتی کام ریکارڈ پر کرانے تھے وہ اب تک نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کونسل اجلاس کا ایجنڈا اور بجٹ بنانے سے قبل اپوزیشن سے کوئی مشورہ تک نہیں لیتے ہیں اور اپنی مر ضی کا ایجنڈا ایوان میں لا کر پاس کرا لیتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ جبکہ کونسل میں ہمیں اجلاس سے قبل ایجنڈے کی کا پی بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ اپوزیشن کے رکن جنید مکاتی کی باتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ میئر وسیم اختر مسلسل تین سال یہ دعوے کرتے رہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں تھے اور فندز کی بھی کمی تھی مگر 18 جون کو کونسل سے منظور کرائی جانے والی قراردادیں میئر کی ان باتوں کو غلط ثابت کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے پاس فندز نہیں تھے اور اختیارات بھی نہیں تھے تو انہوں نے کونسل کے آخری اجلاس میں کون سے ترقیاتی کاموں کی منظوری لی ہے ؟ رواں بلدیاتی دور میں کے ایم سی کا نظام بھی بری طرح متاثر رہا ۔میئر نے تین سال کے دوران تقریباً تمام 28 محکموں کو قانون کے مطابق چلانے کے بجائے اپنی مرضی سے ’’اسٹاپ گیپ ارینجمینٹ‘‘ یا او پی ایس کی بنیاد پر مقرر کیے گئے کم گریڈ کے ڈائریکٹرز کے ذریعے چلایا اور اب جب ان کا دور ختم ہونے میں صرف چند مہینے رہ گئے ہیں انتہائی چالاکی سے 26 محکموں کو 14 میں تبدیل کرنے کی قرارداد منظور کرالی گئی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی شہر اور ادارے کے مفاد کے بجائے صرف چند افسران کو نوازنے کے لیے کیا گیا۔ اس اقدام سے سب سے زیادہ فائدہ میئر نے اپنے چہیتے افسر مسعود عالم کو پہنچایا جن کی’’من پسند‘‘ پوسٹ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز کو دوبارہ تخصیص (Redesignate) کے نام پر دراصل گریڈ 19 سے 20 میں اپ گریڈ کردیا گیا۔ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس محکمہ کا اہم شعبہ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اب کے ایم سی کے پاس نہیں رہا۔ تاہم بجٹ میں اس کے اخراجات اور عملے کی تفصیلات ظاہر کی جاتی ہیں۔ اب حکومت سندھ کا سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ہی سولڈ ویسٹ سے متعلق جملہ امور کا صوبائی ذمے دار ادارہ ہے۔ اسی طرح میونسپل سروسز میں شامل انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی ) کے شعبے کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کی موجودگی کے بعد کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ میونسپل سروسز کا سب سے اہم شعبہ فائربریگیڈ کو 2009 تا 2017 اس طرح نقصان پہنچایا گیا کہ یہ اب صرف 6 فائر ٹینڈرز پر مشتمل دنیا کا نرالافائر فائیٹنگ کا شعبہ بن گیا اس دوران مذکورہ محکمے کا سینئر ڈائریکٹر کوئی اور نہیں یہی مسعود عالم تھے جنہیں اب ڈائریکٹر جنرل میونسپل سروسز لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کے ایم سی کو ایس ایل جی اے 2013 میں انتظامی عہدوں میں ردوبدل کا کوئی اختیار بھی نہیں ہے مگر ’’بے اختیار‘‘ میئر نے کونسل سے خلاف قانون قرار داد منظور کرواکر یہ ثابت بھی کیا کہ وہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ایک طرف پرانے محکموں کی تعداد میں کمی کرکے ایک نیا محکمہ سینٹرل ریکارڈ رجسٹری ( سی آر آر ) قائم کرکے اس کے لیے ایک سو چار نئی اسامیاں تخلیق دے کر بلدیہ پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے ایم سی کی ان بلاضرورت قراردادوں کی منظوری دے گی یا انہیں ختم کردے گی۔ کیونکہ حتمی طور پر حکومت ہی ان امور پر فیصلوں کا اختیار رکھتی ہے۔ شہری اور شہر کے خیر خواہوں کی تو صرف یہ خواہش ہے کہ کراچی کے فنڈز کا بے حساب اور خلاف قانون استعمال کرنے والوں کے ساتھ بے دردانہ احتساب کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے شہر کو نقصان پہنچانے کا تصور تک نہ کرسکے۔