خدارا! احسان کیجیے

228

آرمی چیف محترم قمر جاوید باجوہ نے فوجی بجٹ اور تنخواہوں میں اضافہ لینے سے انکار کرکے اپنے قد میں مزید اضافہ کرلیا ہے‘ اتنا اضافہ کہ ان کی سمت دیکھنے والوں کی پگڑیاں قدموں میں گر پڑی ہیں، قوم کا ہر فرد ان کے جذبے کو دل کی گہرائیوں سے سراہ رہا ہے۔ سپہ سالار اعظم کا ارشاد ہے کہ ان کا یہ فیصلہ قوم پر احسان نہیں بلکہ ملکی معیشت کے پیش نظر حب الوطنی کا یہی تقاضا تھا۔ کاش! وہ قوم پر احسان بھی کرتے حب الوطنی کی اس پکار پر ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ اور سول اعلیٰ افسران کو بھی لبیک کہنے کی ہدایت کرتے، کیوں کہ یہ لوگ دوسروں کی ہدایات ہی پر عمل کرنے کے خوگر ہیں، یہ طبقہ اپنی ذات کے سوا کسی کو اہمیت نہیں دیتا۔ خود نمائی ان کی فطرت ہے یہ لوگ اپنی ذات سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ گھر کی جانب جانے والی سڑک کا نام اپنے نام پر رکھ دیتے ہیں۔ بہاولپور کے معروف نابینا شاعر ظہور آثم نے اسی پس منظر میں کہا تھا۔
خود سے بہت ہی پیار تھا مجھ کو سو، میں نے یہ کیا
اپنی سڑک کا نام بھی نام پر اپنے رکھ دیا
سپہ سالار اعظم کا فوجی بجٹ اور اعلیٰ فوجی
افسران کی تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کا اعلان انتہائی خوش کن اور سماعت نواز ہے مگر خوش آئند نہیں، کیوں کہ ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ قوم کی مفلسی اور بدحالی کی بنیادی وجہ ہے جب تک اس بنیادی وجہ کا سدباب نہیں کیا جاتا خوشحالی ممکن نہیں، اگر اس نام نہاد محترم اور معزز طبقے سے سہولتیں اور ناجائز مراعات واپس لے لی جائیں تو قومی خزانے سے ناروا بوجھ کم ہوجائے گا اور ملک و قوم کی خوشحالی کا خواب حقیقت بن جائے گا۔ یہ کیسا مذاق ہے، یہ کیسی بے حسی ہے کہ عوام روٹی کے ایک ایک نوالے کے لیے دن رات اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں اور ان کے ووٹوں کے طفیل کامیابی کا سہرا سجانے والے ہر دم شہنائیوں کی گونج سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ اپنے وزن سے بھی زیادہ تنخواہ لینے والے ان طفیلیوں کو پٹرول، بجلی، گیس، ٹیلی فون، سفر کی سہولتیں اور اسی طرح کی دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں آئیں یا نہ آئیں الائونس حاصل کرنا ان کا حق سمجھا جاتا ہے۔ تحریک انصاف جو دن رات چور! چور! کا شور مچاتی رہتی ہے ایسی ہی بدعنوانی اور دھاندلی کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔
شنید ہے، نئے پاکستان کا نیا بجٹ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوگا، کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بجٹ تحریک انصاف کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہوسکتا ہے، کچھ ثابت ہو یا نہ ہو مگر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عمران خان کے سارے دعوے اور وعدے جھوٹ کی ایسی زنبیل ہیں جس میں سونامی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان جب بھی اپنی سیاسی زنبیل کھولتے ہیں تو کبھی بے روزگاری کا سیلاب نکلتا ہے، کبھی بے گھری کا عذاب نکلتا ہے اور کبھی مہنگائی کا عفریت باہر آتا ہے۔ سیانوں نے کہا تھا کہ راجا بیوپاری ہو تو پرجا
بھکاری بن جاتی ہے۔ عمران خان اور ان کے ہم نوا قوالوں کی طرح چلاّ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ سابق حکومتوں کا کیا دھرا ہے، ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ خان جی! قوم کو یہی تو شکوہ ہے کہ آپ کچھ نہیں کررہے ہیں، آپ خود کو دیانت دار، ایمان دار اور پارسا ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر الزامات کی سنگ باری کررہے ہیں۔ اگر آپ اسی نہج پر چلتے رہے تو قوم کو سانس لینا بھی دشوار ہوجائے گا۔ حکمران کا فرض کارکردگی ہوتا ہے الزام تراشی نہیں، قوم کو ہر ممکنہ سہولت سے فیض یاب کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، مگر آپ تو قوم سے کاروبار کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ آپ کی حکومت پٹرول خرید کر دگنی قیمت پر فروخت کررہی ہے۔ یہ تو دیگ کا ایک چاول ہے ممکن ہے دیگر معاملات اس سے بھی زیادہ ہولناک اور اذیت ناک ہوں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی حکومت واپڈا کی سطح پر آگئی ہے، بجلی چوروں سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی مگر اپنے نقصان کو پورا کرنے کے لیے عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالتی رہتی ہے۔ خان صاحب! آپ کی حکومت بھی یہی کررہی ہے، مگر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟۔