عقیدہ اور کم تر ذہنی صلاحیت؟

415

کیا یہ ممکن ہے کہ کسی اسلامی معاشرے میں ’’عقیدے‘‘ کو معمولی اور حقیر باور کرایا جائے اور اسے ’’انتہا پسندی‘‘ اور کم تر ذہنی صلاحیت سے منسلک کیا جائے؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ کسی اسلامی معاشرے میں یہ سب ممکن نہیں ہے تو روزنامہ جنگ میں دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہونے والی مندرجہ ذیل خبر ملاحظہ فرمائیے۔
’’ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شدت پسند اور ’’کٹر عقیدے‘‘ والوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ نتائج اس تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئے جس میں شدت پسند گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے خیالات اور سوچ کی وجہ سے لڑنے اور مرنے کے لیے کس قدر تیار ہیں۔ تحقیق کے دوران یورپ میں سرگرم دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ذیلی گروپ کے کارکنوں کے دماغ کے اسکین کیے گئے جنہیں دیکھ کر معلوم ہوا کہ ایسے افراد میں نتائج کی پروا کرنے، تجزیہ کرنے اور منطق پر غور کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران ایسے افراد کی شدت پسندی میں کمی لانے کی ترکیبیں ناکام ثابت ہوئیں۔ ان کے دماغ کا وہ حصہ کسی بھی طرح کی سرگرمی سے عاری ہے جہاں دلائل جنم لیتے ہیں‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 13 جون صفحہ 12)
جیسا کہ ظاہر ہے اس خبر میں کئی ’’مسائل‘‘ موجود ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ خبر میں ’’اسلامی عقیدے‘‘ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے منسلک کردیا گیا ہے۔ دوسر امسئلہ یہ ہے کہ ’’اسلامی عقیدے‘‘ کو کم تر ذہنی صلاحیت سے وابستہ کردیا گیا ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ خبر میں تحقیق کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ تحقیق کا مرکز نامعلوم ہے۔ پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ تحقیق کا Sample متنوع نہیں۔ یعنی اس میں تمام عقاید کے ماننے والے موجود ہیں۔ چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ ایسی ’’خبر‘‘ دراصل ’’خبر‘‘ ہی نہیں ہوتی۔ چناں چہ اسے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں شائع ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ اس خبر سے لاکھوں کم علم افراد ’’عقیدے‘‘ کے حوالے سے گمراہ ہوسکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ خبر عقیدے بالخصوص ’’اسلامی عقیدے‘‘ پر ایک ڈرون حملے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کی کوئی علمی اور تاریخی بنیاد بھی نہیں ہے۔ اسلام میں عقاید سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں ہے۔ عقیدئہ توحید، عقیدئہ رسالت، عقیدئہ آخرت اور مطلق اخلاقیات کے عقیدے کے بغیر اسلام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ خبر عقیدے کا ذکر اس طرح کررہی ہے کہ اوّل تو عقیدہ ہونا ہی نہیں چاہیے اور اگر عقیدہ ہو بھی تو اسے ’’کٹر‘‘ یعنی راسخ، بہت گہرا اور پائدار نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ خبر کے مطابق کٹر عقیدے کے حامل لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دماغ میں سرے سے وہ حصہ سرگرم ہی نہیں ہوتا جہاں دلائل جنم لیتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ تمام انبیا و مرسلین کا سب سے بڑا وصف اللہ پر غیر متزلزی ایمان تھا۔ ان کا بے مثال عقیدئہ توحید تھا۔ چناں چہ کسی بھی نبی نے کبھی حق گوئی کے حوالے سے ’’نتائج‘‘ کی ’’پروا‘‘ نہیں کی۔ مثلاً سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ حکومت تھی، نہ فوج تھی، نہ ریاست تھی، یہاں تک کہ اہل ایمان کی کوئی جماعت بھی نہ تھی مگر وہ تن تنہا بادشاہ وقت اور ریاست وقت کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ سیدنا موسیٰؑ اور ان کے چھوٹے بھائی سیدنا ہارونؑ کے پاس بھی کوئی حکومت، کوئی فوج اور کوئی ریاست نہ تھی مگر وہ بھی وقت کے فرعون اور وقت کی ریاست کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ مکی زندگی میں رسول اکرمؐ کے پاس بھی کوئی حکومت، کوئی ریاست اور کوئی فوج نہ تھی مگر آپؐ طاقت ور ترین، مال دار ترین اور متکبر ترین سرداران مکہ کے سامنے حق لے کر کھڑے ہوگئے۔ اہل مکہ نے ایک مرحلے پر آپؐ سے کہا بھی کہ اگر آپؐ کو سیاسی طاقت درکار ہے تو ہم آپ کو اپنا سردار بنالیتے ہیں۔ دولت درکار ہے تو مال و زر آپ کے قدموں میں ڈھیر کیے دیتے ہیں۔ عرب کی جس خوبصورت ترین عورت سے آپؐ چاہیں آپؐ کی شادی کرادیتے ہیں۔ مگر رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دو تب بھی اس بات کی تبلیغ سے باز آنے والا نہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حق کی سربلندی کے حوالے سے کوئی نبی نتائج کی پروا ہی نہیں کرتا تھا۔ چناں چہ اخبار کی خبر کے اعتبار سے تو ہر نبی معاذاللہ کٹر عقیدے کا حامل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھا۔ نہ ہی انہیں نتائج کی پروا تھی۔ چناں چہ خبر کے مطابق تمام انبیا میں تجزیہ کرنے اور منطق پر غور کرنے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔ اتفاق سے یہی معاملہ صحابہ کرامؓ کا بھی ہے۔ رسول اکرمؐ نے غزوئہ بدر میں 313 صحابہؓ کو ایک ہزار کے لشکر کے سامنے کھڑا کردیا۔ 313 افراد کا احوال بھی اہم تھا۔ ان کے پاس ایک یا دو گھوڑے تھے۔ اکثر کے پاس تلواریں اور نیزے نہ تھے۔ زرہ بکتر بھی بہت کم لوگوں کے پاس تھی۔ اونٹوں کی بھی کمی تھی۔ اس کے برعکس کفار اور مشرکین کے لشکر کے پاس گھوڑوں اور اونٹوں کی فراوانی تھی۔ پورا لشکر ہتھیاروں سے لیس تھا۔ مگر اس کے باوجود کسی صحابی رسول نے رسول اللہ سے یہ نہ کہا کہ آپ یہ کس طرح کی جنگ میں ہمیں جھونک رہے ہیں؟۔ اس کے برعکس صحابہ کی پوری جماعت ایمان اور استقامت کی علامت بنی کھڑی رہی۔ معاذ اللہ خبر کے حساب سے تو 313 صحابہ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور منطقی غور و فکر سے عاری تھے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ہمارے علما، صوفیا، دانش وروں اور مجاہدین نے شجاعت کی جو بے مثال داستانیں رقم کی ہیں ان تمام داستانوں پر انبیا و مرسلین اور صحابہ کرام کی مقدس سنتوں کا سایہ ہے۔ مثلاً حضرت مجدد الف ثانیؒ بادشاہ وقت جہانگیر کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ٹیپو سلطان نے تن تنہا انگریزوں کی قوت کو چیلنج کیا۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے تن تنہا چنگیز خان کی قوت کو للکارا۔ خود قائد اعظم محمد علی جناح وقت کی سپر پاور انگریزوں اور ہندو اکثریت کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ مولانا مودودی جب تک زندہ رہے کسی سیکولر اور لبرل حکمران سے ان کی نہ بنی اور وہ حق کا پرچم بلند کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں موت کی سزا سنادی گئی مگر مولانا کے عقیدے میں کوئی تزلزل نہ آیا۔ جنگ کی خبر کے اعتبار سے تو یہ تمام لوگ شدت پسند بھی تھے اور منطقی طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری تھے۔ اللہ اکبر۔
یہاں ہمیں یاد آیا کہ ایک بار جیو نے سات گھنٹے تک آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ کی تصویر اسکرین پر چلا کر الزام لگایا کہ وہ حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے ذمے دار ہیں۔اسٹیبلشمنٹ نے دوچار ہفتے جیو کی نشریات کو ’’ڈسٹرب‘‘ تو کیا مگر اسٹیبلشمنٹ بہرحال جیو کا کچھ بگاڑ نہ سکی۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ زیر بحث مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں جتنے بڑے کام ہوئے ہیں ’’کٹر عقاید‘‘ یا راسخ القیدگی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ دنیا کے تین عظیم ترین فلسفی یعنی سقراط، افلاطون اور ارسطو مذہبی فکر سے آراستہ تھے۔ سقراط روح کے لافانی ہونے کا قائل تھا۔ وہ حیات بعدالموت پر ایمان رکھتا تھا اور اس کا عقیدہ تھا کہ صداقت سب سے بڑی نیکی ہے۔ افلاطون کی پوری کائنات راسخ العقیدگی میں ڈوبی ہوئی ہے اور افلاطون کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ وائٹ ہیڈ جیسے بڑے فلسفی نے کہا ہے کہ پورا مغربی فلسفہ افلاطون کے فلسفے کا حاشیہ ہے۔ ارسطو خدا کو ہر حرکت کا فاعل سمجھتا تھا۔ یہ تینوں فلسفی سوا دو ہزار سال سے زندہ ہیں اور نہ جانے کب تک زندہ رہیں گے۔ خالص مذہبی Text کی عظمت کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے۔ وید اور گیتا ہزاروں سال گزرنے کے باوجود آج تک زندہ ہیں اور ویدانت پر گفتگو کرنے والا شنکر آچاریہ بھی زندہ ہے۔ توریت اور انجیل ہزار تبدیلیوں کے باوجود ابھی تک زندہ Text کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قرآن مجید قیامت تک زندہ رہے گا۔ جنگ مغرب کے سیکولر معاشروں کے سو عظیم ترین شاعروں کی شاعری کو ایک جگہ جمع کرلے اور اسے راسخ العقیدہ مولانا روم کی شاعری کے مقابل لائے۔ اس تجربے سے معلوم ہوگا کہ راسخ العقیدہ مولانا روم کی تخلیقی، ذہنی اور علمی سطح کے سامنے ان سو شاعروں کی مجموعی شاعری کی بھی کوئی اوقات نہیں ہے۔ راسخ العقیدہ امام غزالی کی بلند خیالی کا یہ عالم ہے کہ فلسفہ ان کا شعبہ نہیں تھا مگر انہوں نے یونانی فلسفے کا جو محاکمہ کیا ہے اس پر 800 سال گزرنے کے باوجود کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہاں تک کہ فلسفی اعظم ابن رشد نے کہا ہے کہ غزالی مجھ سے زیادہ فلسفہ جانتے ہیں مگر وہ فلسفے کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ ابن رشد پیدائشی مسلمان تھا مگر اس کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ غزالی کے شاگردوں کے برابر بھی مذہب کو جانتا تھا۔
ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ ذہن کو محدود نہیں کرتا لامحدود بناتا ہے۔ فکر کو سطحی نہیں بناتا اسے گہرا بناتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عقیدہ انسان کے پورے وجود کو متاثر کرتا ہے۔ وہ صرف ذہن تک محدود نہیں رہتا، وہ جذبات و احساسات، روحانی کیفیات، نفسی واردات غرضیکہ انسان کی شخصیت کے ہر گوشے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چناں چہ جب انسان کا پورا وجود متحرک ہوتا ہے تو انسان کی تمام ہم آہنگی ارتقا کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں کا کوئی عقیدہ ہی نہیں ہوتا یا عقیدہ من گھڑت اور خراب ہوتا ہے ان کی فکر میں کوئی گہرائی ہوتی ہے نہ کوئی وسعت۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ ’’عقیدہ‘‘ صرف ’’مذہبی‘‘ نہیں ہوتا۔
توحید بھی ایک عقیدہ ہے اور کفر اور شرک بھی ایک عقیدہ ہے۔ کمیونسٹ، سیکولر اور لبرل لوگ مذہبی لوگوں کا عقیدے کے حوالے سے مذاق اڑاتے ہیں اور وہ عقیدے کو گالی دینے کے لیے اسے ’’Dogma‘‘ یا ’’منجمد جذبہ‘‘ کہتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مارکسزم خود ایک عقیدہ تھا اور سیکولر ازم اور لبرل ازم بھی ایک عقیدہ ہے۔ حال ہی میں برطانیہ سے شائع ہونے والا مغرب کے اہم ترین ہفت روزہ Economist نے لبرل ازم کے بحران کے حوالے سے خصوصی گوشہ شائع کیا۔ اس گوشے میں لبرل ازم کو ایک ’’Faith‘‘ یا ایک عقیدہ قرار دیا گیا۔ چناں چہ لفظ عقیدے کے حوالے سے مذہب اور غیر مذہب میں کوئی فرق نہیں۔ مذہبی عقیدہ اگر لوگوں کو گہری اور منطقی فکر سے دور رکھتا ہے تو پھر سیکولر اور لبرل عقاید بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔ مگر مذکورہ خبر کا سارا نزلہ مذہبی بالخصوص عقیدے پر گرا ہے۔ کسی کو القاعدہ میں اگر عیب نظر آئے ہیں تو وہ عیب ضرور بیان کیے جائیں مگر القاعدہ کی آڑ میں اسلامی عقاید پر نہ تھوکا جائے۔ کوئی عقیدے پر تھوکے گا تو کل لوگ ضرور اس پر بھی تھوکیں گے۔