افغانستان کے طویل اور پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے اس وقت بیک وقت مذاکرات اور معاہدات کے کئی چینلز کام کر رہے ہیں۔ کہیں امریکا اور طالبان آمنے سامنے ہیں تو کہیں افغان حکومت اور پاکستان بات چیت جار ی رکھے ہوئے ہیں۔ کہیں طالبان اور افغان اپوزیشن باہم شیر وشکرہوتے نظر آرہے ہیں۔ معاملات اور مسائل کی سوئی دو مقامات پر اٹک کر رہ گئی ہے چوں کہ طالبان اس وقت افغانستان کی ایک بالادست مگر غیر سرکاری قوت ہیں اوران سے بات چیت اور انہیں کسی مرکزی دھارے میں لانا ہر کسی کی مجبوری ہے اس لیے طالبان اس حیثیت کا فائدہ اُٹھا کر اپنے مطالبات کومنوانا چاہتے ہیں۔ امریکاا کی افغانستان کے حالات میں مثال اس شعر کے مصداق ہے۔
گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا میرے آگے
امریکا افغانستان میں مار بھی کھا رہا ہے مگر وہ افغانستان کا میدان علاقائی ملکوں کے لیے خالی بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ طالبان کے دو مطالبات اس وقت خاصی توجہ اور اہمیت کے حامل ہیں جن میں پہلا مطالبہ افغان سرزمین سے امریکی افواج کا مکمل انخلا اور دوسرا افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے انکار ہے۔ دوحہ مذاکرات کے چینل میں جہاں طالبان براہ راست امریکا کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں کہ یہی نکات وجہ نزاع ہیں۔ پاکستان نے طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے انہیں امریکیوں کے سامنے تو بٹھادیا مگر وہ طالبان کو اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا اور نہ طالبان کوئی ڈکٹیشن قبول کرنے کے موڈ میں ہیں۔ وہ سترہ برس سے لڑتے چلے آرہے ہیں اور ان کی نسلیں اسی لڑائی کے کلچر میں پل کر جوان ہو رہی ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کے پاس لڑائی امن سے زیادہ آسان آپشن ہے۔ وہ کامل فتح کی منزل تک پہنچیں یا نہیں مگر لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ افغانستان میں امن کی ضرورت علاقائی ملکوں اور طاقتوں کو امریکا سے زیادہ ہے۔ امریکا کے لیے افغانستان کا رستا ہوا زخم امن سے زیادہ فائدہ مند ہے مگر پاس پڑوس کے ملکوں کے لیے پرامن افغانستان انتہائی ضروری ہوگیا۔ روس، چین، پاکستان ایران سب افغانستان میں اپنی ضرورتوں کے لیے امن چاہتے ہیں۔ روس توانائی کے منصوبوں اور وسط ایشیائی ریاستوں میں امن کی خاطر ایسا چاہتا ہے تو چین کا منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ افغانستان میں امن کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، پاکستان کا امن تو افغانستان کے امن سے جڑ کر رہ گیا ہے۔ ایران کی بھی کچھ ایسی ہی مجبوریاں اور ضرورتیں ہیں۔ اسی لیے علاقائی ممالک افغانستان کے امریکی اسٹائل کے حل سے ہٹ کر اس کا مقامی اور علاقائی حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ تھا کہ یہ افغانستان کے حالات کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بھی تھا اور افغان مسئلے کے حل میںسب سے زیادہ لیوریج بھی رکھتا تھامگر امریکا اور بھارت نے ڈولتی لرزتی کابل حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کو حل میں مدد معاون بنانے کے بجائے ایک ’’مسئلہ ‘‘ بناکر رکھ دیا تھا۔ پاکستان کو افغانستان کے شہروں میں ناپسندیدہ اور اجنبی بنا نے کے ساتھ ساتھ مسئلے کے حل سے الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ امریکا تلخ زمینی حقیقتوں کا اعتراف کرنے کے بجائے پاکستان سے’’ڈومور‘‘ کی گردان جاری رکھے ہوا تھا اور پاکستان بھی اس کے جواب میں کبھی مبہم انداز میں سرہلا دیتا اور کبھی ’’نومور‘‘ کہہ کر آنکھیں دکھاتا چلا جاتا۔ اس سے بحث وتکرار اور پالیسی سے افغان مسئلے کے حل سترہ برس پر محیط ہو گیا۔ اس طوالت کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان نے پاکستان کے علاوہ بھی علاقے میں اپنے لیے دوستوں کی تلاش شروع کر دی۔ وہ بہت جلد روس ایران اور چین کے ساتھ اپنے روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں کچھ اعلانیہ کمک بھی ملنا شروع ہو گئی۔ یوں امریکا کے افغانستان میں نئے سوویت یونین ہوجانے اور بن جانے کے امکانا ت واضح طور پر نظر آنا شروع ہوگئے۔ منظر تیزی سے بدلتا گیا اور آخر کار بات افغان امن عمل کے لیے’’لاہور پروسیس‘‘ تک جا پہنچی۔ لاہور پروسیس افغان مسئلے کے حل کے لیے خالص پاکستانی کوشش کا نام ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس مری میں بھوربن کے مقام پر ہوئی جس میں افغانستان کے جہادی دور کے سکہ بند کمانڈروں اور ماضی کے بھولے بسرے دوستوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی جن میں گل بدین حکمت یار نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود اور جمعیت اسلامی کے استاد عطامحمد سمیت کئی دوسرے رہنما بھی تھے۔ اس کانفرنس میں افغانستان کے طول وعرض سے اٹھارہ سیاسی جماعتوں کے پینتالیس نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس میں گل بدین حکمت یار کا خطاب بہت کلیدی اہمیت کا حامل تھا جن کا کہناتھا کہ افغانستان کی جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے اور کچھ قوتیں افغانستان میں امن نہیں چاہتی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پر ساری جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔ احمد ولی مسعود نے بھی ا س کانفرنس کو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں نئے باب کا اضافہ قرار دیا۔ احمد ولی مسعود کی پاکستان آمد اس بات کا اشارہ ہے کہ لاہور پروسیس کو کئی وسط ایشیائی ملکوں کے توسط سے روس کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ واضح رہے کہ حکمت یار افغانستان کے اگلے انتخابات میں صدارتی امیدوار ہیں۔ حکمت یارافغانستان کے جہادی کمانڈروں میں سب سے موثر نمایاں اور صاحب بصیرت شخصیت سمجھے جاتے رہے ہیں۔
طالبان کے ظہور کے بعد وہ افغانستان چھوڑ کر پہلے زیرزمین چلے گئے تھے پھر ایران کی طرف کوچ کر گئے تھے۔ اس کانفرنس میں طالبان کی ظاہری نمائندگی تو نہیں تھی مگر طالبان کہیں نہ کہیں اس پروسیس کا حصہ رہے ہوں گے کیوں کہ طالبان کی نمائندگی سے محروم کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد قطعی بے معنی ہے۔ صرف طالبان ہی نہیں افغان سفارت خانہ بھی اس کانفرنس کا حصہ رہا ہو گا کیوں کہ مری سے اسلام آباد کی طرف افغانستان کے جھنڈوں والی گاڑیاں دیکھی گئیں۔ جھنڈا کسی شخصیت کی سرکاری حیثیت کا پتا دیتا ہے۔ افغان مسئلے کے حل کے لیے ’’لاہور پروسیس‘‘ پاکستان کے اس کردار کا اعتراف ہے جس سے امریکا نے انکار کرکے مسئلے کے حل کو سترہ سال سے بھی زیادہ عرصے پر محیط اور طو یل کر دیا تھا۔