مسجد ذرا فاصلے پر ہی ہے لیکن ظہر کی نماز پڑھنے جانے اور آنے میں چکر آجاتے ہیں۔ اتنی چبھن، گرمی اور حبس ہے۔ تیز ہوا کے ساتھ جمعہ کے روز دوچار بوندیں پڑیں۔ کراچی ائر کنڈیشنڈ ہو گیا۔ اگلے دن پھر وہی گرمی اور حبس۔ اس وقت جب کہ عوام شدید ترین گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی اذیت میں جھلس رہے ہیں۔ ہردل چاتا ہے کپڑے شبنم سے ہلکے ہوں۔ ٹی وی پر وزیر وزرا اور حکومت کے حوالیوں موالیوں کو دیکھو توسب موٹے موٹے کو ٹوں میں۔ ائر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوائوں میں۔ بجٹ میں عوام پر مہنگائی اور بے روزگاری کا جہنم کھول دیا گیا ہے جب کہ حکمران مہنگی گاڑیوں، پرتعیش رہائش، لباس اور خوراک سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ گزشتہ سال وزیراعظم ہائوس کے اخراجات 98 کروڑ 60 لاکھ روپے تھے۔ موجودہ بجٹ میں ایک ارب 17کروڑ روپے مختص ہیں۔ تین کروڑ دس لاکھ روپے زیادہ۔ ایوان صدر کے کانامے مال مفت دل بے رحم کی الگ کہانی ہیں۔ تیس لاکھ کا مشاعرہ۔ بیس لا کھ کے طوطوں کے پنجرے۔ 17 لاکھ 83 ہزار کے مٹکے۔ 13 لاکھ کے مور کے پنکھ۔ جو لوگ نواز شریف اور ان کی حکومت کی مغل طرز حکومت میں مثال تلاشتے تھے یہ ان کی بچت اورکفایت شعاری کے نعروںکی حقیقت اور بے شرمی کا عالم ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب معیشت کی ترقی کی رفتارپانچ اعشاریہ آٹھ سے سکڑ کر 2019 میں تین عشاریہ تین رہ گئی ہے۔ کہاں گئے فیصل واڈا جو اگلے ماہ صرف اپنی وزارت میں لاکھوں نوکریاں دینے کا وعدہ کرررہے تھے۔ ماہرین معیشت جانتے ہیں جب تک معیشت کی ترقی کی شرح چھ فیصد سے اوپر نہیں ہوتی، نو کریاں جنم نہیں لیتیں۔ گز شتہ گیارہ ماہ میںنوکریاں تو کیا ملنی تھیں جن کی نوکریاں تھیں وہ بھی بے روزگار ہوگئے۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ لوگوں کی اکثریت کو زراعت کے شعبے میں ہی کام اور نوکریاں ملتی ہیں۔ برآمدات کا انحصار بھی زراعت پر ہے۔ زراعت میں شرح نمو 2018 میں 3.8 تھی۔ جب کہ گزشتہ گیارہ مہینے میں یہ زیرو اعشاریہ آٹھ پر چلی گئی ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم۔ زراعت ایسا شعبہ ہے کہ اس کا سالانہ بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں سے کم ہی تعلق ہے۔ زراعت کے شعبے پر آج کام کیا جائے چھ ماہ بعد ہی پھل ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ انڈسٹری کا حال دیکھیں تو اس سے بھی برا ہے۔ پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد سے انڈسٹری کی شرح نمو ایک اعشاریہ چار پر آگئی ہے۔ اس بری کارکردگی پر یہ اللے تلّلے۔ یہ عیاشیاں۔ یہ گھر پھونک تماشا دیکھ والی حالت اور سب کچھ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ۔ کام کے بردست دعووں کے ساتھ۔
گزشتہ سال بجٹ میں تنخواہ دار، درمیانی طبقے اور چھوٹے کاروباریوں کو چھوٹ دی گئی تھی۔ اس بجٹ میں نہ صرف یہ چھوٹ واپس لے لی گئی ہے بلکہ ان طبقات پرٹیکسوں میں اضافہ کردیا گیا ہے دوسری طرف وسعت قلبی اور فیاضی کا یہ عالم ہے کہ بڑی کمپنیوں کے منافع پر لگنے والے کارپوریٹ ٹیکس کو پچھلے سال کی 29فی صد کی سطح پر ہی رکھا گیا ہے۔ ارب پتی افراد اور بڑے کاروبار پر لگنے والے سپر ٹیکس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اسٹاک ایکس چینج پر بھی کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ امراکے اثاثہ اجات پر عائد ہونے والے ویلتھ ٹیکس جسے مشرف نے ختم کردیا تھا اسے بھی واپس نا فذ نہیں کیا گیا۔ فنانس سپلمنٹری بل 2019میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کودی جانے والی کھربوں روپے کی ٹیکس مراعات اور سبسڈیوں میں سے زیادہ تر کو جوں کا توں رکھا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ویلفیئر ٹرسٹ کی آڑ میں چلنے والی افواج پاکستان کی کاروباری سلطنت کی مالیت کم از کم 7000 ارب روپے ہے لیکن اس پر بھی کوئی ٹیکس لگنا تو دور کی بات ہے اس شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی بھی کسی میں ہمت نہیں۔ ایک نیم سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کو حکومت سے حاصل ہونے والی ٹیکس مراعات اور سبسڈیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ تقریباً 1000 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ حکمران طبقے نے ملک کے معاشی بحران کا سارا بوجھ غریب عوام اور پسے ہوئے طبقے پر ڈال دیا ہے۔ اس ملک میںمراعات واپس لینے، ٹیکس دینے، ظلم کرنے اور باریک اور باریک پیسنے کے لیے کوئی ہے تو غریب عوام۔
بجٹ سے محض ایک روز پہلے آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز کو گرفتار کرلیا گیا۔ نیب کی خوئے انصاف اسی دن جاگی۔ نہ دو چار دن پہلے نہ دو چار دن بعد کیوں کہ’’ نیب وزیراعظم کے ماتحت نہیں ہے‘‘۔ صحابہ کرام کے بارے میںوزیراعظم کی جہالت کے اظہارنے لوگوں کے غصے کا رُخ بالکل ہی موڑ کر رکھ دیا۔ رات گئے ایک کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ عوام اور دینی طبقہ صحابہ کرام کے دفاع میں، میڈیا زرداری، حمزہ اور الطاف حسین کی گرفتاریوں پر تجزیوں اور اپوزیشن زرداری اور حمزہ کے پروڈکشن آرڈرز کے چکر میں لگ گیا۔ بجٹ کی اصل حقیقت، نا مکمل اعداد وشمار اور پرفریب اصطلاحات کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ عمران خان عوام پر اس بھیانک حملے میں کا میاب ہوگئے۔ کیا ٹیکسوں میں بے پناہ اضافے سے ملک کا قرضہ اُتر جائے گا، ملک سنور جائے گا، ذلت کی تاریکی ختم ہوجائے گی، کامیابی کا سورج طلوع ہوجائے گا تو یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ عوام کے اس نچڑے ہوئے خون سے آئی ایم ایف کی سیرابی جسم وجاں کا بندوبست کیا جائے گا اور بس۔
گزشتہ دنوں پاناما ڈرامے کے پورے دوبرس بعد نجی چینلز پر مریم نواز کا خطاب براہ راست دکھا یا گیا۔ غلطی کا احساس کرلیا گیا ہے ؟ غلطی کو درست کرنے کے لیے اقدامات آغاز کردیے گئے ہیں؟۔ گزشتہ گیارہ مہینے میں ہر شعبہ حیات میں جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے کیا ملک کے حقیقی ذمے داران اس کو نظر انداز کرتے کرتے تھک گئے ہیں؟ عمران خان کا سحر بڑی تیزی سے ختم ہواہے۔ اس کے یوٹرن اور تضادات سے ملک کا بچہ بچہ آگا ہ ہوچکا ہے۔ جن کے حکم سے تمام ٹی وی چینلز پر نواز شریف اور زرداری کو کرپٹ،چور اور لٹیرا کہا جاتا تھا، پرائم ٹائم میں عمران خان کی تقریریں گھنٹوں براہ راست دکھائی جاتی تھیں، عمران خان کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا، مریم نواز کی تقریر ان کے حکم کے بغیر نہیں چل سکتی ۔
اصل حکمرانوں کی اس حقیقت شناسی کے بعدفرض کیجیے جلد ہی ملک میں نئے الیکشن کا انعقاد ہوجائے، پارلیمنٹ کے اندر ہی کوئی تبدیلی آجائے یا سیاسی قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ مل کر کوئی نیا سیٹ اپ بنالے تب بھی عوام کے دن نہیں پھرنے ہیں۔ عوام کو کچھ نہیں ملنا ہے۔ یہ تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی ہوگی اور بس۔ نظام وہی رہے گا جو پرویز مشرف کے دور میں تھا۔ زرداری اور نواز شریف کے دور میں تھا یا اب عمران خان کے دور میں ہے۔ موجودہ اقتصادی استعماری نظام میں عوام کے لیے ٹیکسوں اور سیلز ٹیکسوںکی بھرمار کے سواکچھ نہیں۔ غریب شہر کو نہیں چھوڑا جائے گا چا ہے کوئی بھی آجائے۔ یہ نظام ان کی بھی ہڈیاں چچوڑنے سے باز نہیں آئے گا جن پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ جو خود زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ صرف ایک ہی نظام ہے، خلافت راشدہ کا نظام، جس میں کسی بھی قسم کے ظالمانہ ٹیکسوں کا تصور نہیں۔ جس میں غریب پر نہ ٹیکس ہوتا ہے اور نہ سیلز ٹیکس۔ صرف مالی طور پر قابل استطاعت لوگوں سے محصولات لیے جاتے ہیں۔ مال تجارت کے مالک سے زکوٰۃ، زرعی زمین کے مالک سے خراج۔ اسلام سود پر مبنی قرضوں کو مسترد کرتا ہے۔ چاہے وہ بیرونی قرضے ہوں یا اندرونی قرضے یاا داخلی سرکاری بونڈز کی صورت میں۔ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکمرانی میں ہماری نجات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں نہ صرف نا کام ہو گیا ہے بلکہ اس نظام نے انسانوں کو عظیم حادثات سے دوچار کردیا ہے۔