شوکت عزیزکو سلیکٹڈ کیوں نہ کہا گیا

218

پارلیمنٹ کے اجلاس اور مجالس قائمہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک طویل عرصہ ہوچکا ہے‘ تحریک التوا‘ تحریک استحقاق اور الفاظ حذف کرنے جیسے تین نکات پر ہمیشہ توجہ رہی کہ اس کا پس منظر ضرورخبر فائل کرتے ہوئے ذہن میں رکھا اور مناسب الفاظ اور ترتیب کے ساتھ کوشش کی کہ اسے خبر کا حصہ بھی بنایا اور گرفت میں آنے سے بھی بچتے رہے تحریک استحقاق ایک ایسی تحریک کو کہا جاتا جو کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے اس بنیاد پر پیش کی جاتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہونے سے روکا گیا ہے‘ یا پارلیمنٹ میں کوئی سوال پوچھنے پر جان بوجھ کردرست معلومات نہیں دی گئیں ایسی صورت میں کوئی بھی رکن سینیٹ یا قومی اسمبلی‘ جس ایوان کا وہ رکن ہوگا‘ تحریک استحقاق پیش کرسکتا ہے‘ لیکن قوی اسمبلی کسی رکن سینیٹ کو کسی معاملے کی وضاحت کے لیے طلب نہیں کر سکتی‘ اور نہ سینیٹ کسی رکن قومی اسمبلی کو کسی معاملے کی وضاحت کے لیے طلب کرسکتی ہے یہ پارلیمانی روایات ہیں جن کی پاس داری کی جاتی ہے بالکل اسی طرح یہ کبھی نہیں ہوا کہ تحریک استحقاق ایوان میں پیش ہوئی ہو اور اسے استحقاق کمیٹی میں بھجوائے بغیر رولنگ دے دی گئی ہو‘ قاعدہ یہ رہا ہے کہ اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ اسے استحقاق کمیٹی میں بھجواتے ہیں جہاں تمام پارلیمانی جماعتوں کے ارکان معاملے پر غور کرتے ہیں اور پھر ایسی کسی بھی تحریک پر اپنا فیصلہ دیتے ہیں‘ غالباً2005 کی بات ہے‘ سینیٹر رضا ربانی‘ سینیٹر سردار مہتاب احمد اور دیگر بارہ سینیٹرز نے اس وقت کے وزیر دفاع کو سینیٹ کی مجلس قائمہ کے اجلاس میں شریک نہ ہونے پر تحریک استحقاق کے ذریعے کمیٹی میں طلب کیے جانے کی کوشش کی‘ لیکن اس وقت چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو نے اس کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ اس وقت کے وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے سینیٹ میں وزیر دفاع کا بھرپور دفاع کیا تھا اور تحریک استحقاق کی مخالفت کی تھی‘ یہ بھی پارلیمانی روایت رہی ہے کہ حکومت کے وزیر اپوزیشن کے رویے سے تنگ آکر واک آئوٹ نہیں کرتے‘ لیکن یہ کام بھی مشرف دور میں ہوا‘ اور وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیرافگن نے کیا ابھی حال ہی میں وزیر توانائی عمر ایوب خان‘ جنہیں شوکت عزیز دور میں وزارت خزانہ میں وزیر مملکت کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا‘ وہ اپنے والد گوہر ایوب خان کے بوجوہ اسمبلی نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے پہلی بار اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے‘ ان کی والدہ زیب گوہر بھی براہ راست انتخاب لڑ کر نہیں بلکہ خواتین کی نشست پر مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن نامزد ہوئی تھیں‘ بہت ہی خوش لباس‘ باوقار اور وضع دار خاتون تھیں‘ خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو پہلے ہی علم ہوتا ہے کہ وہ رکن بن سکیں گی یا نہیں‘ انہیں اپنی پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حاصل کی جانے والی نشستوں کے حساب سے علم ہوجاتا ہے‘ اس صورت حال کو کیا کہا جائے گا2002 میں ہونے والے عام انتخابات میں جب پہلی بار مخصوص نشستوں پر خواتین ایوان میں آئیں تو انہیں بھی کچھ سوالات نے گھیر رکھا تھا کہ ان کی حیثیت کیا ہوگی‘ کیا انہیں بھی وہی مراعات ملیں گی جو کسی بھی منتخب رکن کے لیے ہیں انہیں مراعات تو وہی مل رہی ہیں لیکن گلے شکوے اب بھی ہیں یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب جمہوریت مستحکم ہوتی چلی جائے گی‘ ان کے گلے شکوے بھی ختم ہوتے جائیں گے قومی اسمبلی کے حالیہ بجٹ اجلاس میںڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیر اعظم کے لیے ایوان میں لفظ سلیکٹڈ وزیر اعظم استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے لیکن کیا اس رولنگ کا اطلاق سینیٹ میں بھی ہوگا؟ پارلیمانی رپورٹنگ کا تجربہ کہتا ہے کہ نہیں ہوگا‘ سینیٹ میں رولنگ چیئرمین سینیٹ کی ہوگی‘ چیئرمین سینیٹ تو اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کے روبرو اگر ایسی تحریک استحقاق لائی جائے تو وہ فوری فیصلہ سنانے کی بجائے اسے مجلس قائمہ برائے استحقاق میں بھیج دیں‘ سینیٹ میں ایسی تحریک کا لایا جانا اورا سے استحقاق کمیٹی میں بھیج دینے کا فیصلہ میڈیا کے لیے ایک بڑی خبر بن جائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس پر ٹاک شوز بھی ہوجائیں ’’تحریک استحقاق‘‘ پر جس طرح کا فیصلہ قومی اسمبلی میں ہوا اس پر بہت پارلیمانی بحث کی ضرورت ہے ایوان کا کوئی رکن جب ’’تحریک استحقاق‘‘ پیش کرے تو سپیکر کو فقط یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ قواعد وضوابط کے مطابق ہے یا نہیں وہ مطمئن ہوجائے تو ایوان کی اجازت سے تحریک کو اس کمیٹی کے حوالے کردیا جاتا ہے اور پھر وہی فیصلہ کرتی ہے کمیٹی کے چیئرمین اپنا فیصلہ ایوان میں سناتے ہیں‘ وزیر اعظم کوئی بھی ہو‘ اسے ایوان نے اپنے ووٹ سے چنا ہوتا ہے‘ قومی اسمبلی حالیہ دس پندرہ برسوں میں جناب میر ظفر اللہ جمالی‘ چوہدری شجاعت حسین‘ شوکت عزیز‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجا پرویز اشرف کو اس منصب کے لیے چن چکی ہے‘ اور وزیر اعظم کا بھی فرض ہے کہ وہ خود بھی اس منصب کی رکھوالی کرے‘ ظفر اللہ جمالی کو ہٹائے جانے کے بعد جب چودھری شجاعت وزیر اعظم بنائے گئے تو کسی نے پوچھا کتنی مدت کے لیے بنے ہیں‘ اس سوال پر خاموش تو نہیں رہے البتہ جواب ایسا دیا کہ جس سے تاثر ابھرا کہ اصل امیدوار کے لیے کوئی چانس نہیں رہا‘ لیکن ایک گھنٹے کے بعد ہی خود ہی بیان جاری کردیا کہ وہ عبوری مدت کے لیے ہیں شوکت عزیز‘ سینیٹ سے استعفا دیں گے اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایوان میں آئیں گے تو انہیں وزیر اعظم بنایا جائے گا یوں شوکت عزیز قومی اسمبلی میں آنے سے قبل اس منصب کے لیے سلیکٹ کیے جاچکے تھے انہیں کسی نے سلیکٹڈ وزیر اعظم نہیں کہا‘ کیوں کہ ایوان صدر میں جنرل پرویز مشرف بیٹھے ہوئے تھے جو اس سارے نظام کے نگران تھے۔