من پسند افسران کو نوازنے کیلیے ایک اور سندھ سروسز اکیڈمی قائم

72

کراچی ( رپورٹ : محمد انور )قومی احتساب بیورو (نیب )نے وزیراعلیٰ سندھ کے قریبی عزیز سمیت من پسندبیورو افسران کو غیر معمولی تنخواہوں اور مراعات سے نوازنے اور اعلیٰ سرکاری افسران کی تربیت کی غرض سے پہلے سے موجود سندھ سروسزاکیڈمی کی موجودگی کے باوجود ایک اور اسی طرح کی
اکیڈمی محکمہ بورڈ آف ریونیو کی زیر نگرانی قائم کرنے بعدازاں اسے ٹریننگ مینجمنٹ ایند ریسرچ ونگ میں تبدیل کرنے کا نوٹس لیا ہے۔ اس سارے معاملے کے بارے میں نیب نے انکوائری بھی شروع کردی ہے۔جس کا مقصد کروڑوں روپے کے فنڈز کو ضائع کرنے والے ذمے داروں کا پتا لگانا ہے اور ایک ہی طرز کے اداروں کی موجودگی میں دوسرے ادارے کے قیام کی وجوہات جاننا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو نے حکومت سندھ کے محکمہ لوکل گورنمنٹ بورڈ ، محکمہ ریونیو اور سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن کے افسران سے سندھ سول سروسز اکیڈمی ٹنڈو جام اور سندھ سروسز اکیڈمی کلفٹن کراچی کے قیام کے بعد سے 2018 ء تک کی کارکردگی کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ اکیڈمی ٹنڈو جام کو 2007 ء میں سندھ سول سروسز اکیڈمی کا درجہ بھی دیدیا گیا تھا اس کے باوجود 2010 ء میں ایک اور سندھ سول سروسز اکیڈمی کراچی میں قائم کردی گئی۔ ان دونوں اکیڈمی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سرکاری افسران کی تربیت کے سوا سب کچھ ہورہا ہے۔کراچی میں قائم کی گئی اکیڈمی کو کسی انکوائری کے ڈر سے ٹریننگ مینجمنٹ اینڈ رسرچ ونگ میں خاموشی سے تبدیل کرکے اسے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کا حصہ بنادیا گیا مگر اس کے اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھادیے گئے۔ مذکورہ اکیڈمی کلفٹن کی ایک رہائشی عمارت میں ہے جس کا کرایہ اب 87 لاکھ روپے سالانہ کردیا گیا جو پہلے 69 لاکھ روپے تھا۔یہ بنگلہ ایک اہم شخصیت کی ملکیت بتایا جاتا ہے۔ دونوں اداروں کی قدر مشترک بات یہ بھی ہے کہ یہاں کے افسران کو الاؤنس کی مد میں ایک لاکھ روپے تا 3 لاکھ روپے ماہانہ اضافی دیے جاتے ہیں جبکہ ہر افسر کو نئی لگژری کاریں بھی دی ہوئی ہیں۔سندھ شاید ملک کا واحد صوبہ ہو جہاں افسران کو گاڑیوں کے ساتھ کنونس الاؤنس بھی دیا جارہا ہے جو خلاف قانون ہے۔ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ سول سروسز اکیڈمی کراچی جو اب ٹریننگ و ریسرچ ونگ بنادیا گیا ہے یہاں ہر سال 12 کروڑ روپے سالانہ اخراجات کے باوجود شاذو نادر ہی کوئی تربیتی کورس کرایا جاتا ہو جبکہ اس ادارے میں ریسرچ سے متعلق کوئی کام اب تک نہیں شروع کیا جاسکا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ مذکورہ اکیڈمی کو محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کا حصہ بنائے جانے کے باوجود اس کے دفاتر کو رہائشی نجی بنگلے سے سندھ سیکرٹریٹ میں منتقل بھی نہیں کیا گیا جس کی وجہ بنگلے کے مالک کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اکیڈمی یا ٹریننگ مینجمنٹ ریسرچ ونگ کے ذریعے اب تک وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے رشتے داروسابق کمشنر کراچی آصف علی شاہ چند سالوں کے دوران 3بار تعینات رہ کر بھاری تنخواہ اور مراعات کے فائدے اٹھا چکے ہیں۔خیال رہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول قوانین کے تحت رہائشی عمارتوں کا تجارتی اور کسی اور مقصد کے لیے استعمال غیر قانونی ہے مگر کراچی میں متعدد سرکاری دفاتر بنگلوں میں قائم ہیں۔
اکیڈمی قائم