وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن اے پی سی کرے یا تحریک چلائے کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ سب جانتے ہیں میں کرپشن مقدمات پر سمجھوتا نہیں کروں گا، تحریک انصاف اپنی کارکردگی سے جواب دے گی، جس نے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اس سے حساب لیا جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان سیاسی زندگی میں قدم رکھنے کے فوراً بعد سے تا حال ایک بات جو ایک تسلسل سے کیے جارہے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کو کسی بھی صورت معاف نہیں کریں گے جنہوں نے ملک کی دولت کو بری طرح لوٹا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے ’’این آر او‘‘ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ تمام بااثر افراد یا ادارے جو ملک کی دولت کو نوچنے گھسوٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہ کی جائے لیکن کیا موجودہ حکومت اس سلسلے میں واقعی سنجیدہ ہے یا پھر گزشتہ کئی دہائیوں سے شروع ہونے والا یہ کھیل ماضی کی طرح جاری رہے گا۔
پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے پر جو حکومت صرف 90 دن کے وعدے پر آئی تھی وہ 11 سال گزار کر بھی کسی کا احتساب نہیں کر پائی اور جو سیاسی و مذہبی پارٹیاں اس حکومت کے گرد طواف کرتی رہیں وہ بھی اسی بات پر متفق رہیں کہ جب تک احتساب مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت تک انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ نعرہ جس حکومت کا تھا وہ کوئی جمہوری حکومت یا آئین و قانون کے پاسداری کرنے والی حکومت تو تھی نہیں۔ یہ وہ حکومت تھی جس کے ایک اشارہ ابرو پر پورے ملک کا نظام تہہ و بالا ہو سکتا تھا۔ کسی بھی قسم کا قانون بنالینا، کسی کو بھی زندہ کو ماردینا اور مردہ کو زندہ کر دینا اس کے قبضہ قدرت میں تھا۔ ساری خفیہ ایجنسیاں اس حکومت کے زیر نگیں تھیں۔ تمام تحقیقاتی ادارے اس کے ماتحت تھے۔ وہ جس قسم کے شواہد چاہتی اسے حاصل ہو سکتے تھے۔ ثبوت نہ بھی ملتے تب بھی ’’فرمان‘‘ اوراق حکومت پر شکنیں ڈال سکتا تھا لیکن کیا وہ اپنے دعوؤں میں مخلص تھی؟۔ کیا اس نے اپنے ہی منھ سے لگائے الزامات کو ثابت کیا؟۔ کیا احتساب کا عمل شروع کیا؟، کیا کرپٹ افراد کو ان کے انجام تک پہنچایا؟۔ جتنے بھی سوال اٹھائے گئے ہیں ان سب کا جواب ’’نہیں نہیں نہیں‘‘ کے علاوہ تا حال ’’نہیں‘‘ ہی ہے۔ ایک ایسی حکومت جو تمام تر اختیارات رکھنے کے باوجود کسی کا احتساب نہ کر سکی، کسی قومی مجرم کو اس کے انجام تک نہ پہنچا سکی تو بعد میں آنی والی حکومتوں سے کسی قسم کی اچھائی کی توقع رکھنا کٹوں سے دودھ نکالنے کی سعی لا حاصل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
این آر او کی اصطلاح بھی ایک فوجی حکمران کی ایجاد ہے۔ یہ لفظ پرویز مشرف نے متعارف کرایا تھا۔ میں ان کے خلوص پر شک کیے بغیر یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ شاید وہ ماضی کے جھمیلوں میں اُلجھنے کے بجائے اس بات کی خواہش رکھتے ہوں کہ پاکستان کا ’’آج‘‘ آج سے شروع کیا جائے اور بجائے اس کے کہ ماضی در ماضی ٹٹولنے میں اپنا وقت ضائع کریں، آگے کی جانب پیش قدمی کی جائے لیکن ان کی اس رائے کو پسند نہیں کیا گیا اورآنے والی حکومتوں نے احتساب کے عمل کو جاری رکھنا زیادہ بہتر سمجھا۔ بات کسی حد تک درست ہی تھی کہ مجرموں کے لیے کیسی معافی لیکن کیا اب تک احتساب کے نتیجے میں کچھ حاصل ہوا؟۔ یہ وہ بات ہے جس پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔
ایک جانب خان صاحب کا یہ کہنا کہ وہ کسی بھی کرپٹ کو کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑیں گے لیکن دوسری جانب درجنوں ایسے افراد جن پر سنگین نوعیتوں کے الزامات ہیں، جن پر عدالتوں میں بد عنوانیوں کے مقدمات قائم ہیں اور جو ہر دور کے بازار مصر میں اپنے آپ کو بیچنے کیلئے پیش کرتے رہے ہیں، ان کو اپنی پارٹی کا حصہ بنا لیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جو ہر قسم کی بد عنوانیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کا مشیر یا وزیر بن جاتا ہے وہ عدالت کی نگاہوں میں بھی صاف ستھرا ہوجاتا ہے اور اسے باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔
خبروں کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت نے قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان پہنچانے پر دائر نندی پور ریفرنس سے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان اور جسٹس ( ر ) ریاض کیانی کو بری کردیا۔ دوسری جانب عدالت نے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، شمائلہ محمود اور ڈاکٹر ریاض محمود کی بریت کی درخواستیں مسترد کردیں۔ واضح رہے کہ نندی پور ریفرنس قانونی طور پر نندی پور توانائی منصوبے پر نظرثانی میں غیر معمولی تاخیر کے بارے میں ہے جس سے اس کی لاگت میں کئی ارب روپے اضافہ ہوا تھا۔ ریفرنس میں قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر قانون اور تحریک انصاف کے رہنما بابراعوان، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور وزارت قانون و انصاف اور پانی و بجلی کو اس کیس میں ملزم ٹھہرایا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ہی نوعیت کے مقدمے اور ایک ہی نوعیت کے الزام میں ایک فرد باعزت بری ہو جاتا ہے اور کچھ لوگ پابند سلاسل ہی رہتے ہیں۔
کراچی کی سیاست میں بھی یہی سارا کھیل دیکھا جاتا رہا ہے۔ جس جس نے بھی ایک بنائی گئی پارٹی میں شمولیت اختیار کی وہ پاک صاف کہلایا اور جس نے بھی ذرا ضد کی وہ سلاخوں کے پیچھے سے ہوتا ہوا سفر آخرت پر روانہ کر دیا گیا۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے پی پی پی کے چیئر مین بلاول زردارای نے کہا ہے کہ نندی پور کیس کے فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ یا تو پی ٹی آئی میں آؤ یا جیل جاؤ۔ احتساب سے نہ تو کسی کو کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی و مذہبی پارٹی یا گروہ اس سے انکاری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ احتساب شفاف نظر نہیں آ رہا جس کی وجہ سے ہر حلقہ بے اعتمادی کا شکار ہے۔ اب تک جو بات سامنے آئی ہے وہ یہی ہے کہ اس میں حکمران جماعت کی مخالف جماعتیں یا سیاستدان گھیرے جا رہے ہیں یا پھر وہ معزز صاحبان جن میں ججز بھی شامل ہیں، جو افواج پاکستان کے بہت سارے اقدامات کو یا تو ہدف تنقید بنا رہے ہیں یا وہ فوجی مداخلتوں کو عدالتی امور میں پسند نہیں کرتے۔
رہی این آر او والی بات تو وہ کب اور کہاں کہاں مسلسل دیکھنے میں نہیں آرہا۔ وہ بڑی بڑی مجھلیاں جو کھربوں کے حساب سے روپیہ پیسہ ہضم کر گئیں اور جن کیلئے وزیر اعضم کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ان کی بدعنوانیوں کے ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو اب سے قبل کسی حکومت کے پاس بھی نہیں تھے، ان سے ’’گزارش‘‘ کی جا رہے ہے کہ وہ اپنے اندرونِ ملک و بیرونِ ملک اثاثے ظاہر کرکے حرام کو حلال کروالیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھوس شوہد کی موجودگی میں ان کے سارے اثاثاجات قرق ہونے چاہئیں یا ان کی لوٹ مار کو جائز قرار دینا چاہیے؟۔ کیا یہ رویہ ’’این آر او‘‘ نہیں۔ کیا پانا میں شامل 436 افراد جس میں عسکری قیادتیں اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز بھی شامل ہیں ان سب سے چشم پوشی ’’این آر او‘‘ نہیں۔ کیا پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے مقدمات میں نرمی، ان کی ضمانتیں یا ان کی بریت ’’این آر او‘‘ نہیں۔ یہ اور ایسے ہی بہت سارے اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ خان صاحب اپنے کہے سے پھر جانے کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں اس وقت سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا عزم و ارادہ، وعدہ و دعویٰ ہو جس سے مسلسل انحراف نہ کر تے رہے ہوں اس لئے یہ سمجھ لینا کہ وہ آنے والے ایام میں کوئی ’’این آر او‘‘ نہیں کریں گے، کوئی معجزاتی بات تو ہو سکتی ہے مگر فطری نہیں جس کا تازہ ترین ثبوت ’’میثاقِ معیشت‘‘ ہے۔