لوح نصیب

235

 

 

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر بچہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتا مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ ہر بچہ اپنی پیشانی پر خوشیوں کی قوس قزح لے کر دُنیا میں آتا ہے، مسکراہٹ بچوں کے چہروں پر سجی رہتی ہے وہ صرف تکلیف کا اظہار کرنے کے لیے روتے ہیں سو، رونا دھونا تقدیر کا لکھا نہیں آدمی کا نصیب ہے۔ مقدرات اٹل ہوتے ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا نہیں مٹتا مگر نصیب سادہ کاغذ کی طرح ہوتا ہے اگر آدمی محنت، ذہانت اور صبروتحمل سے لکھے تو لوح نصیب خوش خطی کا اعلیٰ ترین نمونہ بن جاتی ہے۔ بہت سے بچے ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پیدا ہوتے ہیں سو، علم الاعداد کے مطابق ان کے ستارے بھی یکساں ہوتے ہیں مگر تقدیر الگ الگ ہوتی ہے۔ جو بچے صاحب حیثیت اور صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں اعلیٰ ترین ملازمت اور منہ میں سونے کا چمچہ ہوتا ہے اور جو بچے بے حیثیت گھرانوں میں جنم لیتے ہیں ان کے منہ میں چسنی بھی نہیں ہوتی۔
عام مشاہدہ ہے کہ جب کوئی مہمان آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اپنا نصیب لے کے آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تقدیر اور نصیب میں فرق کیا ہے؟۔ تقدیر آدمی کی مجبوری ہے اور نصیب خود مختاری ہے۔ انسان جو کچھ کماتا ہے وہ اس کا نصیب ہے اور جو کمائے بغیر میسر ہو وہ تقدیر ہے۔ آئے دن ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو کچھ نہیں کرتے مگر سب کچھ کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تقدیر کا دیا کھارہے ہیں جو سب کچھ کرنے کے باوجود کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تقدیر ہی میں نہیں۔ خوش بختی اور بدبختی آدمی کے اختیار میں نہیں مگر بدبختی کے بداثرات سے محفوظ رہنا اس کے اختیار میں ہوتا ہے۔ ایک ٹانگ پر کھڑا رہنا انسان کے اختیار میں نہیں مگر چلنا پھرنا اور کھڑا ہونا اس کے اختیار میں ہے۔ اگر آدمی بیساکھی کو اپنا ساتھی بنالے، بدبختی سے بچنے کے لیے محنت کی بیساکھی کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگ اس ضرورت کو سمجھتے ہیں وہ بدبخت نہیں رہتے، تقدیر ان کے دروازے پر دستک نہیں دیتی مگر خوش بختی ان کی دہلیز پر کھڑی رہتی ہے، انسان کو وہی ملتا ہے جو کماتا ہے اور جو بغیر محنت کیے مل جائے وہ اللہ کی دین ہے اور جہاں تک لین دین کا تعلق ہے تو اس معاملے میں تقدیر سے زیادہ ذہانت اور محنت کار فرما ہوتی ہے، محنت اور ذہانت کا امتزاج آدمی کا مزاج ہی نہیں نصیب بھی بدل دیتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ خوش بختی اور بدبختی کا مفہوم مختلف مکاتب فکر کی نظر میں مختلف ہوتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی اور مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی نظر میں پاکستان اور اہل پاکستان کی خوش بختی یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان کی نظر میں بدبختی یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں شکست سے دوچار ہونے والے درختوں کی گنتی کرکے سیاسی نشے کی لت پوری کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ درختوں کی گنتی کرنے کے بجائے لوٹی ہوئی دولت کی گنتی کرکے واپس کریں۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان نے قوم کو شجرکاری کی ترغیب دینے کے لیے کہا تھا کہ انہوں نے کئی ارب درخت لگائے ہیں۔ اپوزیشن نے بہت ڈھونڈا مگر درختوں کی اتنی بڑی تعداد کہیں دکھائی نہ دی، ان کی پریشانی دور کرنے کے لیے مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ خان صاحب نے پندرہ ارب درخت اس سیارے میں لگائے ہیں جہاں پچاس لاکھ گھر زیر تعمیر ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اپنا شمار خوش بخت لوگوں میں کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی خوش بختی ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں شامل ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ اپوزیشن جتنی چاہے سازشیں کرلے مگر وہ پارلیمنٹ کو سیاسی اکھاڑا نہیں بننے دیں گی۔ محترمہ کے ارشاد سے انکار ممکن ہی نہیں کیوں کہ پارلیمنٹ میں اکھاڑا اسی وقت بنے گا جب پارلیمنٹ ہوگی۔ بانس کے بغیر بانسری کیسے بنے گی۔