وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید آئے دن ریلوے کی آمدنی کے بارے میں خوش کن اعداد و شمار پیش کرتے رہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے کبھی نہیں تھکتے کہ انہوں نے ریلوے کو اتنا خوشحال اور خوش بخت بنادیا ہے کہ اس کی آمدنی سے پاکستان کے تمام اقتصادی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں مگر حالات و قرائن بتارہے ہیں کہ شیخ رشید کا وفاقی وزیر ریلوے بننا اہل وطن کی بدنصیبی ہے۔ شیخ صاحب ریلوے کے لیے سبز قدم ثابت ہوتے ہیں جب سے ریلوے کی وزارت ان کے حوالے ہوئی ہے ٹرینیں اپنا سر ٹکرا رہی ہیں گویا! ماتم کناں ہیں کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جو ریلوے کے لیے بدبختی کا پیغام لے کر نہ آتا ہو۔ ریلوے مسلسل خسارے میں جارہا ہے مگر شیخ صاحب! خسارے کو منافع ظاہر کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں حیدر آباد میں جناح ایکسپریس نے پٹڑی پر کھڑی مال گاڑی کو اس زور سے ٹکر ماری کہ اس کے اپنے بھی پرخچے اُڑ گئے۔ جناح ایکسپریس اور مال گاڑی کے انجن تباہ ہوگئے، دو ڈرائیور دو گارڈ اور متعدد مسافر جاں بحق ہوگئے۔ ایسا ہی ایک حادثہ بھارت میں بھی ہوا تھا اس وقت ریلوے کے وزیر شاستری جی تھے، مسافر ٹرین کا مال کھڑی سے جو پٹڑی پر کھڑی تھی ٹکرانا باعث حیرت ہی نہیں باعث شرم بھی تھا۔ شاستری جی! نے اسی حادثے کو اپنی نااہلی قرار دیا اور مستعفی ہوگئے۔ انہوں نے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھیرایا، کسی کی غفلت اور لاپروائی کا رونا بھی نہیں رویا۔ حیرت کی بات ہے ساڑھے چار فٹ کے ننھے منے شاستری کا دل کتنا بڑا تھا انہوں نے اس اذیت ناک حادثے کو اپنی وزارت کی غفلت قرار دیا اور اس کی ذمے داری بھی قبول کرلی اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس حادثے کی ذمے دار بھی سابق حکومتوں کو قرار دے رہے ہیں۔
شیخ رشید خاصے لحیم شحیم اور بھاری تن و توش کے مالک ہیں۔ کاش! ان کے اندر ایک ننھا من شاستری ہوتا جو حادثے میں ہونے والے نقصان
کو پورا کرنے کے لیے ٹرین کے کرائے میں اضافہ کرنے کے بجائے مستعفی ہونا پسند کرتا۔ یادش بخیر! شیخ صاحب نے ریلوے کی وزارت سنبھالتے ہی کرائے میں بیس فی صد اضافے کا منصوبہ بنالیا تھا مگر حالات نے اجازت نہ دی۔ کہتے ہیں رواں سال میں ٹرینوں کے 61 حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ گویا چھ ماہ میں 61 حادثے ہوئے ہیں، خاتم بدہن ریلوے کی یہی کارکردگی رہی اور شیخ صاحب! ریلوے چلانے کے بجائے شیخیاں بگھارتے رہے تو سال کے بقایا چھ ماہ میں کم از کم اتنے ہی حادثے اور ہوسکتے ہیں۔ ہم کراچی سے بہاولپور آرہے تھے ٹرین حسب معمول مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ٹرین میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی مگر مسافروں کی آمد تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی، کچھ مسافر ملیر اور لانڈھی کے لیے سوار ہوئے تو ٹکٹ چیکر نے پانچ پانچ روپے لینا شروع کردیے، ہم نے یہ منظر دیکھا تو کہا۔ اب سمجھ میں آیا کہ ریلوے خسارے میں کیوں جارہا ہے۔ ٹکٹ چیکر نے ہماری سمت دیکھا اور کہا صحافی ہو؟ میری یہ بات غور سے سنو۔ خسارہ پانچ روپے لینے سے نہیں ہوتا کیوں کہ ٹرین میں مسافروں کی تعداد سیٹوں سے زیادہ ہوتی ہے، اصل کسارہ ٹرینوں کے حادثات سے ہوتا ہے، تم یہ جان کر یقینا حیران ہو گے کہ اکثر حادثے دیدہ دانستہ ہوتے ہیں ان کے لیے باقاعدہ سازش کی جاتی ہے، منصوبے بنائے جاتے ہیں کیوں کہ پیسے حاصل کرنے کا یہ آسان ترین طریقہ ہے۔ ہم نے ٹکٹ چیکر کی بات پر جتنا غور کیا ہم اس کے تجربے اور تجزیے کے قائل ہوتے گئے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ٹرینوں میں پچاس فی صد مسافر فرش پر سفر کرتے ہیں اور عیدین کے موقع پر ٹرینوں کی چھتوں پر بھی بیٹھے دکھائی دیتے ہیں سو، ٹرینیں خسارے کا موجب نہیں بن سکتیں۔ جب سے شیخ رشید ریلوے کے وزیر بنے ہیں خاصے باتدبیر ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حادثے کیوں ہورہے ہیں؟ اور ان کی منصوبہ بندی کون کررہا ہے؟ کوئی ہے؟ جو اس معاملے کی چھان بین کرے۔ شاید یہ ممکن نہیں کیوں کہ نئے پاکستان میں چھان بین کے بجائے الزامات کی بین بجائی جاتی ہے۔