قول وفعل کا تضاد

428

امّتِ مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ ہم قول وفعل کے تضاد کا شکار ہیں، اس میں حکمران اور عوام سب ہی درجہ بدرجہ شامل ہیں۔ اسی دوعملی، منافقت اور تضاد کی وجہ سے ہم دنیا میں ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی یہ خصلت از حد ناپسند ہے، ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو، جس پر تم خود عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بڑی ناراضی کا سبب ہے کہ تم کہو کچھ اور کروکچھ، (الصف: 2-3)‘‘۔ قرونِ وسطیٰ میں یہود کے علماء کا یہی شِعار تھا، جس کی قرآن مجید نے سختی سے مذمت فرمائی: ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، سو کیا تم (قول وفعل کے اس تضاد کو) سمجھتے نہیں ہو، (البقرہ: 44)‘‘۔
مزید فرمایا: ’’پس عذاب ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت لے لیں، سو ان کے لیے عذاب ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور جو کچھ انہوں نے کمایا، اس کے سبب سے ان کو عذاب ہوگا، (البقرہ: 79)‘‘۔ یعنی ان کی یہ دو عملی اور دنیا کے عارضی مفادات کا طمع انہیں کتابِ الٰہی میں تحریف پر بھی آمادہ کردیتا تھا۔ تھوڑی قیمت سے یہ مراد نہیں ہے کہ زیادہ ملے تو پھر یہ سودا کرلینا چاہیے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت کی اَبدی اور دائمی نعمتوں کے بدلے میں ساری دنیا کی دولت بھی مل جائے، تو وہ حقیر ہے اور یہ سودا خسارے کا سودا ہے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں دوزخ میں بکھر جائیں گی اور وہ اس طرح گردش کر رہا ہوگا جس طرح چکی کے گرد گدھا گردش کرتا ہے، دوزخی اس کے گرد جمع ہوکر اس سے کہیں گے: اے فلاں! کیا بات ہے؟، تم تو ہم سب کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور بُرائی سے روکتے تھے، وہ کہے گا: میں تم کو تو نیکی کا حکم دیتا تھا، مگر خود نیک کام نہیں کرتا تھا اور میں تم کو تو بُرائی سے روکتا تھا، مگر خود بُرے کام کرتا تھا، (بخاری)‘‘۔ چنانچہ آج اُسی عملی منافقت اور تضاد کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس حوالے سے ہر دور کے خطباء، واعظین، ذاکرین اور قومی رہنمائی کے منصب پر فائز ہونے والوں کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے اور آخرت میں ان کی دو عملی کا وبال بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا، چنانچہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’معراج کی شب میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا، جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے، جب بھی ان کو کاٹا جاتا وہ جڑجاتے اور پھر ان کو کاٹا جاتا، میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟۔ انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے وہ واعظین ہیں جو لوگوں تو خیر کی دعوت دیتے تھے، مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے، وہ کتاب اللہ کو پڑھتے تھے، مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے، (مسندابویعلیٰ)‘‘۔
ہمارے اندر ایک بڑی خرابی یہ دَر آئی ہے کہ ہم اسلام اور اپنے اکابر کے شان دار ماضی کے سہارے جینا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس اعزاز واکرام اور افتخار کا حق دار گردانتے ہیں، جس کے معیار پر ہم کسی بھی طور پر پورا نہیں اترتے۔ ہمیں اپنی معاصر دنیا سے بہت شکوہ اور شکایت ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے ان کا طرزِ عمل اور اپروچ عداوت اور بغض پر مبنی ہے، حالانکہ اسلام اتنا خوبصورت، پرامن، عافیت اور سلامتی کا دین ہے۔ ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پارہے کہ اکیڈمک یا ٹیکسٹ بک یا کتابی اسلام اور آج کے مسلمان کے کردار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آئیڈیل اور کتابی اسلام کچھ اور ہے اور پریکٹسنگ اسلام یا مسلمانوں کی عملی تعبیر وتصویر اس سے بہت مختلف ہے۔ اسی لیے فارسی میں کہتے ہیں: ’’اسلام در کتاب ومسلمان درگور‘‘۔ یعنی حقیقی اسلام تو کتاب (قرآن وسنت) میں ہے اور جو مسلمان اس کی عملی تعبیر وتصویر تھے، وہ اپنی قبور میں آرام فرما ہیں۔
ہماری ایک غلط فہمی یا ناقص اندازِ فکر یہ بھی ہے کہ ہم آئیڈیل اسلام کا مقابلہ مغرب کے عملی حکمرانوں سے کررہے ہوتے ہیں اور ان کی تہذیبی شکست وریخت، جنسی واَخلاقی زوال اور خاندانی نظام کے منتشر ہونے کو دیکھ کر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ تہذیبِ مغرب روبہ زوال ہے اور جلد یا بدیر یہ تہذیب رو بہ زوال ہوجائے گی، لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ آیا ہم اس خَلا کو پُر کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں اور یہ کہ آیا ہم موجودہ دنیا کی قیادت کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں؟۔ پس سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل کی دنیا ہے، مفروضوں اور موہوم تصورات (Perceptions) کی دنیا نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے مسلم نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے، اپنے اسی دردِ دل کو انتہائی مؤثر انداز میں بیا ن کیا ہے:
کبھی اے نوجوان مسلم! تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹو ٹا ہوا تارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے؟
جہاں گیرو، جہاں بان وجہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے، وہ نظارا
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا
گنوا دی ہم نے، جو اَسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر، آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سیپارہ
ان اَشعار میں علامہ اقبال مسلم نوجوان کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ذرا دنیا کی رنگینیوں ورعنایوں اور چمک دمک سے کچھ دیر کے لیے نکلے اور چشمِ تصور میں اسلام کے شاندار ماضی کا جائز ہ لے اور اس حقیقت کا تجزیہ کرے کہ اس کے عروج کے اسباب کیا تھے اور وہ کیا اسباب تھے کہ جن کے باعث مسلمان عبرتناک زوال سے دوچار ہوئے۔ وہ مسلم نوجوان کو بتانا چاہتے ہیں کہ تمہارے آباء کردار کے غازی تھے اور تم فقط گفتار کے غازی ہیں، ان کا سفر ہر آن رفعتوں اور سرفرازیوں کی جانب تھا اور تم جمود کا شکار ہو، تو پھر سوچو تمہیں اپنے آباء سے کوئی حقیقی اور عملی نسبت ہے کہ تم ان کی سطوت وشوکت اور عِزّ وجاہ کی وراثتوں کی وراثتوں کے وارث اور امین بنو۔
وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنے اَسلاف کی علمی اور عملی عظمت کو جب گنوا دیا اور عزت وافتخار کا اعزاز کھو بیٹھے، تو آسماں نے ہمیں ثریا کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں پٹخ دیا۔ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ صرف حکومت کا چھن جانا ہی ہمارا المیہ نہیں ہے، وہ تو ہونا ہی تھا، کیونکہ دنیا کا مسلّمہ دستور ہے کہ آپ کو دنیوی امامت اور قیادت کے لیے بھی میرٹ پر پورا اترنا ہوگا، ورنہ دنیا کی ٹھوکروں میں پڑے رہو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوامِ عالَم کے ارتقا کا راز علم میں مضمر ہے، لیکن علم کے جن خزینوں اور مآخِذ سے اہلِ مغرب نے استفادہ کیا اور سائنس وٹیکنالوجی میں دنیا کی رہنمائی اور اجارہ داری کے منصب پر فائز ہوگئے، جب میں اپنی اس علمی وراثت (یعنی اَسلاف کی علمی، سائنسی اور فنی کتب) کو یورپ کی لائبریریوں میں دیکھتا ہوں، تو میرا جگر پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔
علامہ اقبال آج کے مسلم نوجوان کو باور کرانا چاہتے ہیںکہ تمہاری آدرش، تمہارا آئیڈیل، تمہاری خواہشات اور تمہاری ترجیحات کا رخ غلط سمت میں ہے، اسی روش پراگر تم گامزن رہے تو تمہیں رفعت وسرفرازی کی منزل کبھی نہیں مل سکتی، اگر اپنے آباء واجداد کی علمی وراثت اور دنیا میں مقامِ افتخار کو پانا ہے، تو اپنے آرزوئیں بدلنی ہوں گی، اپنی ترجیحات کا قبلہ درست کرنا ہوگا، فطرت کے قوانین اَٹل ہیں اور وہ کسی کے لیے بدلتے نہیں ہیں، بدلنا تمہیں خود ہوگا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
تری دعا ہے کہ ہو تری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے