ہم تو اُس وقت خود بچے تھے… (بائیس سال کے بچے) … جب ہم نے سبطِ علی صباؔ کا یہ شعر پہلی بار پڑھا کہ:
ہمارے بچے تو ’ب‘ سے بجلی سمجھ نہ پائیں
جدید مکتب میں ہو رہی ہے پڑھائی کیسی
مگر جب ہم واقعی بچے تھے (یعنی ساٹھ کے بعد شروع ہونے والی دہائی میں) تو اُس وقت ہمارا گھر ہی نہیں، عروس البلاد کراچی کی بہت سی دوسری بستیوں کی طرح خود ہماری بستی (ملیر توسیعی کالونی) بھی، بجلی سے محروم تھی۔ مگر اب ہم اتنے بچے بھی نہ تھے کہ ’ب‘ سے بجلی سمجھ نہ پاتے۔ شہر کا شہر بجلی کی چکا چوند سے جگمگایا کرتا تھا۔ پر ہمارے گھروں میں لالٹین جلتی تھی۔ ہر شام پرانی لالٹین کا شیشہ کوئلوں کی راکھ سے چمکا کر نیا کر دیا جاتا تھا۔ کوئلوں کی راکھ کا قصہ یہ ہے کہ ہماری بستی میں گیس بھی نہیں تھی۔ اپنے بچپن میں ہم نے جتنے چٹخارے دار، مزے دار اور لذیذ کھانے کھائے ہیں، سب کوئلوں یا لکڑی کے گٹکوں کی دھیمی دھیمی آنچ آنچ پر پکے ہوئے ہوتے تھے۔ جو لوگ قدرے بہتر مالی حالت رکھتے تھے وہ مٹی کے تیل کے چولھے خرید لیتے تھے۔ یہ چولھے اچھا خاصا ’سماجی شعور‘ رکھتے تھے۔ مثلاً اگر کسی کی بہو جہیز کم لائے یا جھگڑالو نکل جائے تو فرطِ غم و غصہ سے، ایک دھماکے کے ساتھ، پھٹ پڑتے تھے۔ غرض، کوئلوں کی راکھ سے لالٹین کا شیشہ چمکا کر مغرب کی اذان کے ساتھ ہی اسے روشن کردیا جاتا تھا۔ ابتدائی جماعتوں کی تمام تعلیم، اور ثانوی تعلیمات کی ایک بڑی مدت، اسی روشنی میں تمتماتے چہروں کے ساتھ مکمل کی۔ تفصیلات تو بہت ہیں، کتنی بیان کریں؟ مگر سچ پوچھیے تو وہ زمانا بڑا سہانا زمانا، اور … ’مہکتا، میٹھا، مستانا زمانا‘ … تھا۔ یہ وہی زمانا تھا کہ جس زمانے میں سید سبط علی صباؔ کے بچے ’ب‘ سے بجلی سمجھ نہ پاتے تھے۔ بعد میں تو بس ہوا و ہوس ہی کا زمانہ رہ گیا۔
سید سبطِ علی صباؔ ۱۱؍ نومبر ۱۹۳۵ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم رڑکی (متحدہ ہندوستان) میں حاصل کی۔ وفات ۱۴؍ مئی ۱۹۸۰ء کو واہ کینٹ میں ہوئی۔ صباؔ ’پاکستان آرڈننس فیکٹری‘ واہ کینٹ کے ایک مزدور تھے۔ جسے اہلِ واہ صرف ’فیکٹری‘ کہہ کر پُکارا کرتے ہیں۔ صباؔ اس ’فیکٹری‘ کے محنت کشوں کے لیے قائم کی جانے والی ’بستی کاری گر‘ میں رہا کرتے تھے۔ ’بستی کاری گر‘ کو بھی اہلِ واہ صرف ’بستی‘ کہہ کر پُکارا کرتے ہیں۔ ’فیکٹری‘ کے ملازم اور ’بستی‘ کے مکین شاعر سبط علی صبا کا شمار اُردو شاعری کے اُن شاعروں میں ہوتا ہے جن کا کوئی شعر شاعر سے زیادہ شہرت پاگیا ہو۔ صباؔ کے اشعار ہمارے سماجی حالات کا عکس بھی پیش کرتے ہیں اور سیاسی حالات کا عکس بھی۔ ذرا اِس شعر میں لفظ ’ہوا‘ کی معنی خیزی دیکھیے:
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چُرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے
پھر اِسی غزل کا ایک اور شعر، ہر آمریت کو آئینی جواز فراہم کرنے کے پس منظر میں، پڑھ کر دیکھیے:
میزانِ عدل! تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اُس سمت سے دِلوں نے بڑے زخم کھا لیے
نیز، اسی غزل میں ’بستی کاریگر‘ جیسی بستیوں میں بہ کثرت نظر آنے والا ایک تلخ منظر بھی دیکھیے:
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اُس نے اپنی قبا میں سجا لیے
اور اب وہ شعر جو شاعر سے زیادہ مشہور ہوگیا ہے:
دیوار کیا گری مِرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
یہ مشہور شعر سقوطِ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں کہا گیا تھا۔ کہیے! یہ بات سچ نکلی یا نہیں کہ: ’لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے‘۔ اب ہم اُنھی رستوں سے اپنے گھر آنگن میں دَر آنے والی تمام طاغوتی طاقتوں کے شکنجوں میں خوب اچھی طرح جکڑے ہوئے بیٹھے ہیں۔ یہ ہماری ’’آئی ایم ایف زدگی‘‘ یا ’’ورلڈ بینک گزیدگی‘‘ اورقرض دینے والے دیگر ساہوکاروں کے ہاتھوں ہماری جیب و دامن دریدگی بھی ہمارے صحن میں مزید رستے بنانے کی ویسی ہی ’’عالمی در اندازی‘‘ کا ایک عمل ِ مسلسل ہے، جو ۷۱۔۱۹۷۰ء میں ہم پر مسلط کر دی گئی تھی۔
سید سبطِ علی صباؔ کو عمر کم ملی مگر زندگی زیادہ مل گئی۔ صباؔ ساڑھے چوالیس برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ پَر ہمارے شعر و ادب میں اب تک زندہ ہیں۔ جب تک اردو شاعری زندہ رہے گی، سبط علی صبا بھی زندہ رہیں گے۔ اُن کی اور بھی کئی غزلیں اور دلچسپ اشعار اِس وقت پَرا باندھ کر کالم نگار کے سامنے آکھڑے ہوگئے ہیں۔ مگر اُنہیں کسی اور مناسب (یا نامناسب) موقع کے لیے ہٹا رکھتے ہیں۔
خیر، ذکر تھا بجلی سے محرومی کے دور کا۔ ہمارے بچوں نے تو وہ دَور دیکھا ہی نہیں، جب یہ کہا جاسکتا تھا کہ:
ہمارے بچے تو ’ب‘ سے بجلی سمجھ نہ پائیں
مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اپنے بچپن میں ہم نے وہ دَور دیکھا ہے۔ ہماری طرح کے اور بھی ایسے بہت سے بڑے بڑے (بچے) اِس ملک میں دندناتے پھر رہے ہوں گے، جو لالٹین کی روشنی میں اپنے اپنے ’جدید مکتب‘ کی پڑھائی کا آموختہ کیا کرتے تھے۔ سب ہماری طرح نالائق (اور کالم نگار) نہیں نکل گئے۔ اُن ہی میں سے بہت سے ایسے ہیں جو آج بہت بڑے بڑے عالم ہیں، بہت بڑے بڑے ماہرفن ہیں اور بہت بڑے بڑے اسکالرز ہیں۔کچھ رہ گئے۔ کچھ چل بسے۔ ہر ایک کی الگ الگ داستان ہے اور خاصی طویل ہے۔ اگر کبھی یہ داستان لکھی تو ’’لالٹین کے پڑھاکو‘‘ کے عنوان سے لکھیں گے۔ مگر پڑھے گا کون؟
ہاں تو … ہمارے محلے ملیر توسیعی کالونی (کراچی) میں سن ستّر کی دہائی تک صورتِ حال یہ تھی کہ محلے کے ایک مشہور شاعر میکش گڈھ میکٹشیری کو ایک نئی نظم کہنی پڑی، جس کا ٹیپ کا مصرع اتنا مقبول ہوا کہ اخبارات میں شائع ہونے والے مراسلات تک کا عنوان بنا:
’’کھمبے کھڑے ہوئے ہیں پر روشنی نہیں ہے‘‘
بڑی مدت کے بعد کے ای ایس سی کو خیال آیا کہ اُس نے جو کھمبے ایستادہ کیے ہیں اُن پر تار بھی کسے جانے چاہییں اور اُن میں بجلی بھی چھوڑی جانی چاہیے تاکہ پیسے دے کر اور کنکشن لے کر:
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ’’ہو‘‘ روشن!
سو، بجلی آئی اور اس کے ساتھ بہت سی مصیبتیں بھی چلی آئیں۔ سب سے پہلے فریج آیا، جو اُس زمانے میں’فریجیڈیئر‘ یا آسان الفاظ میں ریفریجریٹر کہلاتا تھا، جب کہ بڑی بوڑھیاں اُس وقت بھی اُسے ’ٹھنڈی الماری‘ کہتی تھیں۔ فرج کے بعد ٹی وی، ٹی وی کے بعد وی سی آر، پھر کلر ٹی وی اور بہت سے ٹی وی چینلز … صاحبو! ہم زندگی کی آسائشوں کو ترک کر دینے کے پرچارَک اور سادھو نہیں ہیں … مگر جن لوگوں نے بجلی سے محرومی کا وہ زمانہ دیکھا ہے، اُن لوگوں سے صرف اتنا پوچھ لیجیے کہ پُرآسائش زندگی وہ تھی یا اب ہے؟ بقول رحمٰن کیانی:
یاد آتا ہے روز اپنا گاؤں
کیا بتائیں تمہارے شہر کا حال
اب جدھر دیکھیے اُدھر، بستیوں میں بجلی بھر گئی ہے۔ پھر عالم بھی یہ ہوگیا ہے کہ اگر کھمبوں میں بجلی نہ ہو (جو ہر ایک دو گھنٹے کے بعد کئی کئی گھنٹوں کے لیے نہیں ہوتی) تو خود بستیوں کے لوگوں کے بدن میں بجلی بھر جاتی ہے۔ اَدبدا کر گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ ہنگامہ مچاتے ہیں اور ٹائروں یا گاڑیوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اِن بستیوں کے لوگوں کی قیادت بھی تو ایسی ہی ہوتی ہے۔ انھی قائدین میں سے ایک قائد تحریک کی شان میں ایک شعر کہہ بیٹھنے کی پاداش میں ہماری جامعہ کراچی کے محترم سابق شیخ الجامعہ پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے بھی گھنٹوں کھڑے رہنے کی سزا بھگتی۔ اُن سے بس اتنا کہنے کا قصور سرزد ہوا تھا:
شہر اگر طلب کرے تُم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
انھی صاحبِ اختیار لوگوں کی تقلید میں اب بے اختیار لوگ بھی علاجِ تیرگی کے لیے آگ لگا دیا کرتے ہیں۔ کریں بھی تو کیا کریں؟ ایسی قیادت منتخب کرنے والوں کے اختیار میں اور ہے بھی کیا؟ اور مسئلہ تو یہ ہے کہ اب لوگ بھی بجلی سے چلنے لگے ہیں اور اُن کا کاروبارِ حیات بھی۔ بجلی چلی جائے تو یوں لگتا ہے کہ:
دل و دیں، ہوش و صبر، سب ہی گئے!