کیا اچھا ہے اور کیا برا

226

یہ سوال ہر دور میں اٹھا جب نئی نئی ایجادات ہورہی تھیں، لائوڈ اسپیکر کے استعمال کے بارے میں بھی بہت سے سوالات اٹھے تھے اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں، ٹی وی جب آیا تو بھی ایسے ہی سوالات اٹھے، یہ اچھا ہے یا برا، تصویر کھنچوانے کا عمل آج بھی کہیں کہیں معیوب سمجھا جارہا ہے یہ بحث اپنی جگہ، تمام سوالات نے خود جواب دیے اور ایجادات اپنی مقبولیت کا راستہ بناتی چلی گئیں لیکن آج میڈیا اور اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کا دور ہے، سوشل میڈیا کے باعث گھر کے اندر بیٹھا ہوا بچہ دنیا بھر سے رابطے میں ہے اور اگر نہیں ہے تو اپنے گھر والوں سے رابطے میں نہیں، یہ عمل گھروں میں باہمی دوریاں پیدا کررہا ہے اور انسانوں خصوصاً نوجوانوں میں خود نمائی جیسے منفی جذبات بھی پرورش پانے لگے ہیں۔ آغاز میں تو اس کا اظہار تصویر لگانے، اپنے کارناموں کو بیان کرنے اور لباس و خوراک کی تشہیر سے ہوا۔ پھر اس میں خود نمائی بھی شامل ہوگئی اور ساتھ ساتھ جھوٹ بھی، اس کے بعد ایک نئی دوڑ شروع ہوتی ہے جس میں ہر کوئی اپنا پروفائل تعلیمی، علمی میدان میں کم نئے نئے کرتبوں سے دوسروں سے بہتر کرنا چاہتا ہے جس سے جھوٹ کے بعد حسد اور نفرت کے جذبات سر اٹھانے لگے اگرچہ اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی تاہم کسی حد تک یہاں تک خیر تھی، مگر پھر کیا ہوا کہ لوگوں نے مذہبی، لسانی اور قومیت پر مبنی جذبات شیئر کرنا شروع کر دیے جس کے بعد ریاست کے کان کھڑے ہوئے اور ریاست کو Act Cyber Crime لانا پڑا۔ لیکن سوشل میڈیا ایک ایسا میدان ہے جس میں لاکھ قوانین بنالیے جائیں اس پر ایک حد تک ہی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
جس بھی ریاست کا تعلق اپنے شہریوں کے ساتھ بہت مضبوط نہیں ہوگا وہاں قوانین پر عمل کرنے کے لیے مطلوبہ شعور عوام میں پیدا نہیں ہوسکے گا۔ سوشل میڈیا کا استعمال سیاست میں سب سے کار آمد ثابت ہوا ہے ہمیں ایک بار رک کر جائزہ لینا ہے کیا اچھا ہے اور کیا برا، ملک کی سلامتی کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے اس ضمن میں شہریوں کی ذمے داری کیا ہے، میڈیا کی ذمے داری کیا ہے اور سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمے داری کیا ہے، پارلیمنٹ اور ملک کی سیاسی قیادت آج کے نوجوان کو بتائے کہ اسے وطن کا وفادار کیسے بننا ہے، اپنی پاک سر زمین کی مٹی سے پیار کیسے کرنا ہے، امریکیوں کا بیانیہ ہمارا نہیں ہوسکتا، ہمارا بیانیہ کیسے بننا ہے ہم اپنی مٹی سے پیار کرکے اس کی حفاظت کے لیے اپنا گرم لہو بہا کر اپنا بیانیہ خود بنائیں گے کہتے ہیں کہ اس کا آغاز عرب بہار سے ہوا، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں بھی برھان وانی کی صورت میں ایک ایسی نسل سامنے آئی جس نے سوشل میڈیا کو باہمی روابط مضبوط کرنے اور دنیا تک اپنی بات پہنچانے کے لیے استعمال کیا پاکستان میں بھی اس کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عرب بہار اور کشمیری جدوجہد کے برعکس یہاں سوشل میڈیا کو جھوٹ پر مبنی ایک ایسے بیانیے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کا نتیجہ سوائے خرابی کے کچھ اور نہیں نکل سکتا کچھ ایسے جرائم بڑھے ہیں کہ خدا کی پناہ چھوٹی عمر کے بچوں کا ایک خاص پس منظر کے ساتھ قتل، افسوسناک واقعات ہیں اس پہلو کا ایک رخ تو یہ ہے کہ ریاست پاکستان سماجی محاذ پر اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ پولیس کی کارکردگی کبھی بھی سوالات سے پاک نہیں رہی اسلام آباد میں ایک بچی فرشتہ قتل ہوتی ہے ، اس بہیمانہ قتل کے کیس میں پولیس نے چار دن تک بچی کے گم ہونے کی ایف آئی آر ہی نہیں کاٹی اور جب قبائلی اکابرین کے دباؤ میں آکر رپورٹ درج کرنا پڑی تو قاعدے کے مطابق تحقیق ہی نہیں کی گئی پولیس کی حد تک سرد مہری کی وجہ سے ملزم فرار ہوئے مقتولہ فرشتہ کا تعلق پختون قبیلے سے تھا اس لیے اس سانحہ پر قومیت کا رنگ چڑھا دیا گیا اور اس بیانیے نے جگہ لے لی کہ ریاست پاکستان پختونوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے اور اس کے بعد ہرزہ سرائی شروع ہوگئی جس کے منہ میں جو آیا وہ بولتا رہا، کہتا رہا اور لکھتا رہا۔
فرشتہ کی موت کا ذمے دار فوج کو ٹھیرانا انتہائی احمقانہ اور غیر ذمے دارانہ بات ہے اور یہیں سے اس واقعے سے جڑے دوسرے افسوس ناک رخ کاذکر شروع ہوتا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان سے ملحق ہونے کی وجہ سے فاٹا ہمیشہ ہی کسی نہ کسی مصیبت کا شکار رہا، یہاں امن قائم کرنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا ہے جنہوں نے یہاں امن قائم کیا ہے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا لیکن سوشل میڈیا پر جو بھی ہورہا ہے، افسوس ناک ہے اگر اس بیانیے کو وقت پر نہ روکا گیا تو سب سے زیادہ فائدہ ہمارا دشمن ہی اٹھائے گا، یہاں ہمیں ایک بار رک کر جائزہ لینا ہے کیا اچھا ہے اور کیا برا، ملک کی سلامتی کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے اس ضمن میں شہریوں کی ذمے داری کیا ہے، میڈیا کی ذمے داری کیا ہے اور سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمے داری کیا ہے، پارلیمنٹ اور ملک کی سیاسی قیادت آج کے نوجوان کو بتائے کہ اسے وطن کا وفادار کیسے بننا ہے، اپنی زمین کی مٹی سے پیار کیسے کرنا ہے۔