ان دنوں سیاست دانوں کے بیانیوں پر ایک ویڈیو بیانیہ غالب آگیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ویڈیو پیش کی ہے جس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک نے اعتراف کیا ہے کہ میاں نواز شریف بے گناہ ہیں انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے انہیں مجبور کیا گیا تھا۔ جج کا یہ اعتراف حیران کن ہے کہ انہیں اخلاق سے گری ہوئی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا مگر اب ان کا ضمیر بیدار ہوچکا ہے، سوتا ہوں تو ڈرائونے خواب آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شخص کے سامنے جج صاحب نے اعتراف جرم کیا ہے اس کی ذات چیچک کے داغوں سے بھی زیادہ داغ دار ہے، یا یوں کہیے کہ وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی نے مذکورہ جج کی ذات کو بھی داغ دار کردیا ہے۔ محترمہ فرماتی ہیں کہ راج کماری مریم نواز نے ناصر نامی بندے کے حوالے سے جو ویڈیو پیش کی ہے وہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، کیوں کہ ناصر بٹ تو خود بستہ بند مجرم ہے جرائم کی دنیا کا ڈان ہے، دنیا میں کوئی ایسا جرم نہیں جو اس نے نہ کیا ہو اور عدالت کسی پیشہ ور مجرم کی گواہی قبول نہیں کرتی۔ محترمہ نے شعوری یا لاشعوری طور پر مذکورہ جج ارشد ملک کی ذات کو مشکوک کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ناصر بٹ مجرموں کا سرغنہ ہے تو جج ارشد ملک سے اس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ اور اس تعلق کا مقصد کیا ہے؟ کیوں کہ جج صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ ناصر بٹ سے ان کے تعلقات ایک طویل عرصے پر محیط ہیں اور اکثر اس سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بدنام ترین مجرم سے ایک نامور جج سے تعلق کیا معنی رکھتے ہیں؟ عام مشاہدہ اور مطالعہ تو یہی ہے کہ جج صاحبان مجرموں سے دوستی نہیں رکھتے اور وکلا اپنے مخالفین سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اور جو وکلا اس اصول پر عمل نہیں کرتے انہیں عام طور پر بکائو کہا جاتا ہے اسی طرح جو جج مجرموں سے دوستی اور تعلق رکھتے ہیں وہ خدا کی نیابت کے بجائے شیطان کی جانشینی کرتے ہیں۔ جج ارشد ملک کا یہ کہنا بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ ان کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ بہت سی باتیں سیاق و سباق سے ہٹ کر ہیں، گویا جج صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ ویڈیو اصلی ہے اور اس موضوع پر ناصر بٹ سے گفتگو ہوئی تھی اور اس طرح کی ایک ویڈیو دس سال پہلے بھی بن چکی ہے اور اس غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے انہیں بلیک میل کیا گیا ہے۔ گویا جج صاحب نیک نام نہیں ہیں وہ اس طرح کی حرکات کے پہلے بھی مرتکب رہے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد یہ پروپیگنڈا کرنا کہ ویڈیو جعلی اور جھوٹی ہے سفید جھوٹ ہے حکومتی اور ٹی وی نمائندوں کا یہ کہنا کہ مریم نواز کا ویڈیو پیش اور مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا یہ کہنا کہ ہمارے پاس اور بھی بہت سے ثبوت ہیں جو مناسب وقت پر پیش کیے جائیں گے۔ عدلیہ کو بدنام اور اس کے کردار کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بدنام کرنے کی سازش نیک نام لوگوں کو رسوا کرنے کے لیے کی جاتی ہے، کردار اور ادارے اپنی کارکردگی کی بدولت رسوا ہوتے ہیں انہیں بدنام کرنے کی لاحاصل کوشش کون کرے گا؟ اور کیوں کرے گا؟۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ویڈیو کا یہ معاملہ نیا نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات اخبارات اور چائے کے کھوکھوں کی زینت بنتے رہے ہیں اور پھر… وقت کی دھول میں دب گئے ہیں۔
کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان حکومت نہیں کررہے ہیں گلے میں پڑے ڈھول کو بجارہے ہیں اور اس زور و شور سے بجا رہے ہیں کہ اپنی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کی عبادت میں رخنہ انداز ہورہے ہیں مگر کوشش کے باوجود ڈھول گلے سے اُتارنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں مگر خان صاحب کی مجبوری کو سمجھنے پر کوئی آمادہ نہیں کیوں کہ وہ اپنے حصے کا کام کرچکے ہیں، عمران خان مستعفی ہونا چاہتے ہیں مگر اسے بے معنی قرار دیا جارہا ہے۔ مڈٹرم الیکشن کی بات پر بھی کوئی توجہ دینے پر آمادہ نہیں بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ حکومت سے جان چھڑانے کا باعزت طریقہ یہی ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج کو متنازع بنادیا جائے۔ بظاہر تو یہ ایک کہانی لگتی ہے مگر حالات اور واقعات کے تناظر میں اس کہانی کا تجزیہ کیا جائے تو حقیقت کی خوشبو چار سو پھیل جائے گی اور خوشبو کو قید نہیں کیا جاسکتا۔