اگر احتساب کا موجودہ عمل اور موجودہ رفتار صرف تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کررہی ہوتی تو کچھ یا بہت ساری بے ضابطگیاں بھی معاف کی جاسکتی تھیں کسی کو وارنٹ کے بغیر بھی پکڑا جاسکتا تھا اور کسی کو دھوکے سے بھی۔ کیوں کہ جعلسازی اور دھوکے بازی سے ملکی دولت لوٹنے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ حیلے یا دو نمبری ہوسکتی ہے۔ لیکن معاملہ یہاں بالکل اُلٹ ہے۔ احتساب پاٹ دار آواز والی لاٹھی چلنے سے قبل تحریک انصاف کے واحد خالص وزیر اسد عمر کو سائڈ لائن یا کھڈے لین لگادیا گیا۔ اب وزرا پہلے ہی اطلاع دے دیتے ہیں کہ کس کی باری ہے۔ آصف زرداری کے بارے میں عمران خان نے خود کہا تھا کہ جیل جائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کے بارے میں بھی یہی کہا تھا۔ جب کہ کسی معاملے میں جو عدالت میں ہو اس پر تبصرہ قابل گرفت ہے اور تبصرہ بھی ایسا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ عدالت کیا فیصلہ کرے گی۔ شکوہ یہ ہے کہ عمران خان کی ترجمانی کی ذمے دار وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان پی ٹی آئی کی نہیں تھیں بلکہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے بارے میں کہا کرتی تھیں کہ وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔ ان کے پی پی پی چھوڑنے کے بعد ذلت و رسوائی سے بچانے کے لیے پی ٹی آئی کی چھتری کام آئی اور ان کے خلاف نیب کے مقدمات ضبط ہوگئے۔ اسی طرح ان کی اپنی کہی ہوئی ایک بات تو غلط ثابت ہوگئی کہ جو پی پی چھوڑتا ہے وہ رسوا ہوتا ہے۔ عوام کی نظروں میں کیا ہوتا ہے اس کی کس کو فکر ہے۔ ایک اور وزیر ہیں اعظم سواتی جو پارلیمانی امور کے وزیر ہیں یہ جے یو آئی کے سینیٹر تھے۔ انہوں نے ریکوڈک کے ٹھیکے کی منسوخی کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواست دی تھی۔ آج پی ٹی آئی کے وزیر ہیں۔ ان سے بھی پوچھا جائے کہ پاکستان کو 6 ارب ڈالر جرمانے کا مرتکب کیوں بنوایا۔
ایک اور وزیر ہیں شیخ رشید جو مسلم لیگ (ن) سے (ق) میں گئے وہاں سے اپنی عوامی مسلم لیگ بنائی، عمران خان انہیں چپراسی بھی رکھنے کے روادار نہیں تھے لیکن انہیں وزیر بنادیا۔ پتا نہیں اس کی سفارش چپ سے آئی تھی یا راس سے۔ لیکن کم از کم ملک کو تو راس نہ آئی۔ ایک سال میں 79 ریلوے حادثات اور کچھ نہیں بگڑا تو وزیر موصوف کا۔ وہ پھر فرمارہے ہیں کہ 40 بندوں کی لائن لگی ہوئی ہے دیگر وزرا میں اہم ترین حفیظ شیخ ہیں جو جنرل پرویز کے دور میں بھی وزیر تھے اور آصف زرداری کے دور میں بھی وزیر تھے۔ آئی ایم ایف سے براہ راست تعلق ہے اور پاکستان میں مالیاتی نظام ٹھیک کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واحد پارٹی ہے جو دفعات 62,63 پر پوری اُترتی ہے۔ 62 ارکان مسلم لیگ کے ہیں اور 63 ارکان پیپلز پارٹی کے ہیں۔ باقی پی ٹی آئی کے نہیں ہیں بلکہ اِدھر اُدھر سے آئے ہیں۔ کچھ پی ٹی آئی میں بھی ہوں گے۔ عمر ایوب بھی تین پارٹیوں کی سیر کرچکے ہیں، آج کل پی ٹی آئی میں ہیں اور تو اور جو صاحب ملکی محصولات کے ذمے دار بنائے گئے ہیں وہ شبر زیدی ہیں یہ تو چند ماہ پیشتر تک اپنے موکلوں کے ٹیکس کم کروانے کے لیے ایف بی آر سے ہیر پھیر کروارہے تھے۔ اب ہیر پھیر روکیں گے۔ یہ تو درست ہے کہ جو ہیر پھیر کروانا جانتا ہو وہ ہیر پھیر روک بھی سکتا ہے۔ لیکن ان کے موکلین کا کیا ہوا جن کے پیرول پر وہ تھے۔ اب تو وہ بھی شعائر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ صدقہ زکوٰۃ سے کام نہیں چلے گا ہر شخص کو ٹیکس دینا ہوگا۔
بات یہ ہورہی تھی کہ احتساب اس طرح ہورہا ہے کہ جو حکومت کا مخالف ہے اس کو پکڑلو۔ رنگے ہوئے تو سب ہی ہیں اس لیے (ن) لیگ ہو یا پی پی پی سب پکڑے جائیں گے۔ 40 کی لائن تو شیخ رشید نے کہہ دی ورنہ 400 کی لائن ہے جس میں حکومت کے بھی بہت سارے لوگ موجود ہیں۔ یہ بات سارے احتساب کو متنازع بنارہی ہے کہ وزرا کو پہلے سے فہرست کون تھمارہا ہے۔ وزیر اعظم ایک طرف اعلان کررہے ہیں کہ ادارے اپنا کام کریں ہم مداخلت نہیں کریں گے اور خود اور ان کے وزرا ایک ایک کو پکڑ کر جیل میں ڈالنے کی بات کررہے ہیں، نام بھی لے رہے ہیں، جس کا نام لیتے ہیں چند روز میں بند ہوجاتا ہے۔ یہ تماشا بھی ہورہا ہے کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو آگئی اب تحقیق اور کارروائی ویڈیو بنانے والے کے خلاف ہورہی ہے۔ اُس ویڈیو بنانے والے کے خلاف کون کارروائی کرے گا جس کا ذکر جج صاحب اس ویڈیو میں کررہے ہیں۔ بات تو اس پر ہونی چاہیے تھی۔ ایک اور تماشا ہونے جارہا ہے سب بھول جائیں کہ کوئی آئین موجود ہے یا نہیں اسمبلیوں میں الگ تماش بین بیٹھے ہیں۔ انہیں کچھ معلوم ہی نہیں، آئین پاکستان عملاً معطل ہوچکا ہے۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارنے کے حوالے سے قوانین جاری کردیے ہیں۔ جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ایس ای سی پی کسی دفتر یا کسی فرد کے گھر پر چھاپا مارتے وقت دروازے توڑ کر کھڑکیوں کو توڑ کر داخل ہوسکتی ہے۔ ضابطے کو جسے قانون کا نام دیا گیا ہے اس کے تحت ایس ای سی پی کے عملے کو کسی بھی دفتر میں گھس کر الیکٹرونک اشیا قبضے میں لینے کا اختیار دیا گیا۔ رسمی طور پر چھاپے کے وقت مقامی پولیس ہوگی انکوائری افسر ہوگا، اور کمیشن کے 2 افراد گواہی کے لیے موجود ہوں گے۔ مزید تفصیل یہ ہے کہ ایس ای سی پی جو الیکٹرونک اشیا قبضے میں لے گی ان کی فہرست علاقائی دفاتر میں موجود ہوگی اور ملزم کو بھی دی جائے گی اور اگر ضبط شدہ اشیا غیر ضروری ہوں تو واپس کردی جائیں گی۔ اسے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے قانون اور اس کے اجرا کو نوٹیفکیشن قرار دیا ہے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ملک کا آئین اور عدالت عظمیٰ کے احکامات معطل ہوگئے ہیں، بنیادی انسانی حقوق بھی معطل ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کے مطابق ہر شہری کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے اور اگر اسے گرفتار کرنا ہے تو وارنٹ کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اب تو وارنٹ کی فوٹو کاپی پر سابق وزیراعظم پکڑا گیا ہے۔ یہ کھڑکی دروازے توڑنے والی باتیں کون کررہا ہے جو لوگ ایسے نوٹیفکیشن جاری کررہے ہیں لگتا ہے پورے یوتھیے ہیں۔ قانون آئین چادر چاردیواری کسی چیز کا کچھ نہیں پتا۔ پاکستان کو انتقامی آگ نے سرزمین بے آئین بنا کر رکھ دیا ہے۔