حکمران ٹرائیکا

168

تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری‘ حکومت کی نااہلیت اور عمران خان کی ضد‘ یہ ٹرائیکا اس وقت ملک پر حکمران ہے۔ 11 ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے‘ حکومت کے پہلے سو دن گزرے بھی سو دن ہوچکے ہیں‘ تین منی اور ایک سالانہ بجٹ بھی دیا جاچکا‘ لیکن حکومت کی سمت نظر نہیں آرہی‘ بحیثیت وزیراعظم عمران خان کی ناتجربہ کاری اور کابینہ میں شامل ترجمانوں، مشیروں اور وزرا اور معاونین خصوصی کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آرہی‘ البتہ شعلہ بیانی بہت نمایاں ہے‘ داخلی و خارجی پالیسی مرتب نہیں ہوئی‘ معاشی اہداف کے لیے حکومت کی گرفت کمزور ہے‘ مہنگائی عوام کو تیزی سے خط غربت کے نیچے لے جارہی ہے پس ماندگی اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے‘ بلاشبہ یہ تجزیہ اور تبصرہ یک طرفہ نہیں ہے‘ اور کسی تعصب کا شکار بھی نہیں ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
انتخابات سے قبل ایک ایسی فضا تھی کہ بس تحریک انصاف حکومت میں آئی اور عمران خان وزیراعظم بن گئے تو دنیا بھر سے پیسہ پاکستان آجائے گا، ہم قرض اتار پھینکیں گے بلکہ پیسہ بڑے ملکوں کے منہ پر ماریں گے۔ ایسی ایسی توقعات باندھی گئیں خدا کی پناہ، یہ سب بہت ہی مختصر عرصے میں ریت کے محل کی طرح مسمار ہورہی ہیں، مہنگائی کا نہ تھمنے والا اور بے لگام طوفان عوام تو کیا خود تحریک انصاف کے اشرافیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ تاجر، کسان اور روزانہ کے دیہاڑی دار، ملازمت پیشہ افراد سب غیر مطمئن نظر آرہے ہیں۔ معیشت کا پہیہ رک چکا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں اور مشکلات آڑے آ رہی ہیں، سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد زبوں حالی کا شکار ہیں ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی شعبہ صحافت بیروز گاری کی دہکتی بھٹی میں جھونکا جاچکا ہے حتیٰ کہ بہت سے ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ ہر سیاسی چوپال کی خبر یہی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے بہت سے فیصلوں پر پاکستان اور اس کے عوام کی جگ ہنسائی اور سبکی ہو رہی ہے ان چوپالوں میں ہونے والی گفتگو کی تان اسی بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ تبدیلی سرکار کے دن گنے جا چکے ہیں یہ بات کسی حد تک سچ بھی ہے عام آدمی چلا اٹھے ہیں کہ انہیں تبدیلی کے نام پر ایسا نیا پاکستان نہیں چاہیے جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ ہر روز تو کیا دن میں متعدد بار تبدیل ہورہے ہوں صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ حکومت سے نجات کی شاید طلب ہو رہی ہے… اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کے لیے وہ جماعتیں اٹھ رہی ہیں جن کے اپنے ذاتی مقاصد ہیں‘ وہ جماعت کیوں نہیں اٹھ رہی جس کی قیادت کی ذاتی مقاصد نہیں ہیں۔
اس کی خاموشی اور عوام کے حق میں بیانیہ کہاں گم ہوچکا ہے کیا عوام ایک بار پھر بلاول بھٹو اور مریم نواز کے لیے باہر نکلیں گے‘ ایک گڑھے کے بعد دوسرا گڑھا؟ ایک فرسٹریشن کے بعد دوسرا درد سر کیوں؟ مخلص سیاسی جماعتیں اپنا بیانیہ کیوں نہیں بنا رہیں؟ یہ جماعتیں ورلڈ کپ کی طرح کیوں ضرب تقسیم کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں‘ یہ کیا تو وہ ہوجائے گا‘ نہ کیا تویہ ہوجائے گا؟ یہ کیوں نہیں دیکھا جارہا کہ عمران خان حکومت کشکول سرکار بنی ہوئی ہے کفایت شعاری، تبدیلی اور نیا پاکستان جیسے نعرے لگا کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے والے عمران خان یوٹرن کی انتہائوں کو چھو رہے ہیں اس حکومت کی معاشی، خارجہ، داخلی پالیسی کہیں نظر آرہی ہے؟
حکومت کسی ایک شعبہ کی بحالی میں کامیاب نہیں ہوسکی برآمدات ہوں یا درآمدات، اسٹاک مارکیٹس کی ابتر صورتحال ہو، مہنگائی کا طوفان ہو، تجاوزات کے نام پر جاری بے رحمانہ آپریشن، ڈالر کی اونچی اڑان کا معاملہ یا غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے اقدامات، منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک سے رقوم کی واپسی کا معاملہ، عمران خان حکومت کو ہر معاملہ میں ناکامی اور بے بسی کا سامنا ہے معاشی ماہرین حکومت کو پاکستانی تاریخ کی کمزور ترین اور ناسمجھ حکومت قرار دے رہے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان حکومت امریکا کی جھولی میں گرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے اسی لیے پاکستانی کرنسی گر رہی ہے اور ڈالر چڑھ رہا ہے‘ سی پیک رول بیک ہوچکا ہے۔