ٹرمپ عمران ملاقات اور مسئلہ کشمیر پر ثالثی کامعاملہ

216

وزیر اعظم عمران خان امریکا کے قصر ِسفید پہنچے تو اعتماد ان کے چہرے اور بدن بولی سے جھلک ہی نہیں چھلک بھی رہا تھا۔ دونوں کو چوں کہ ہم مزاج سمجھاجا رہا ہے اور خود ایک وفاقی وزیر شیخ رشید نے بھی اس ہم مزاجی کا تذکرہ کرتے ہوئے خدا خیر کرے کی دُعا مانگی تھی اس لیے ملاقات سے توقعات سے زیادہ خدشات ہی وابستہ ہو چکے تھے مگر ٹرمپ اپنی حیران کردینے والی صلاحیت کا مظاہرہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں شمالی کوریا کے کم جونگ ان سے ملاقاتوں میں بھی کر چکے ہیں۔ جب ان ملاقاتوں پر دنیا بھر کا میڈیا ’’ہم نے سو چا تھا کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے ‘‘ کے مصداق کسی بری خبر کے لیے کان لگائے اور نظریں جمائے رہتا تھا مگر اندر سے قہقہوں اور خوش گپیوں پر مشتمل مناظر برآمد ہوتے تھے۔ کچھ یہی عمران ٹرمپ ملاقات میں بھی ہوا۔ ظاہر ہے یہ ملاقات الل ٹپ اور اچانک نہیں تھی اس کے پیچھے دیدہ ونادیدہ قوتوں کا بہت ساکام اور محنت ہوئی ہوگی اور ملاقاتیں اور دورہ خوش گوار ہونے کی اُمید یقین اور اشارے پر ہی سبز بتی جل اُٹھی ہوگی۔ عمران خان نیلے رنگ کی قمیض شلوار اور اسی رنگ کا واسکٹ اور خان چپل پہنے ہوئے۔ صدر ٹرمپ بھی نیلے رنگ کے لباس میں ملبوس تھے۔ دونوں کے مزاجوں کے برعکس ملاقات مجموعی طور پر خوش گوار رہی۔ ٹرمپ نے میزبان کی حیثیت میں پریس کانفرنس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا اور وہ پرمزاح جملوں سے محفل کو مزید خوش گوار بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ برطانیہ میںمقیم ہمارے دوست باڈی لینگوئج کے ماہر عارف انیس کے مطابق عمران خان اعتماد کے ساتھ کرسی پر بیٹھے اپنی انگوٹھی گھماتے رہے جس کا مطلب تھا کہ وہ الفاظ اور خیالات کے ایک مچلتے طوفان کو بہت مشکل سے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ گہرا نیلا رنگ کسی شخص کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ مسز ملانیا ٹرمپ کے ساتھ عمران خان کی شناسائی بہت پرانی ہے۔ جس کا ثبوت سوشل میڈیا پر ان کی 1990کی گردش کرتی ہوئی وہ تصویر ہے جس میں عمران خان ایک شہرہ آفاق کرکٹر کی حیثیت سے جس رنگ کا لباس پہنے ہوئے ہیں ایک مداح کے طور پرمسز ٹرمپ اسی رنگ کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور یہ کسی عوامی تقریب کی تصویر ہے جس میں ملانیا ٹرمپ کی والدہ بھی موجود ہیں۔ مسز ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں ملاقات کے بعد عمران خان کے ساتھ ٹویٹر پر تصویر یں اپ لوڈ کرتے ہوئے اس ملاقات پر خوشی کا اظہا ر کیا۔ ٹرمپ عمران ملاقات پر دنیا کی نظریںجمی ہوئی تھیں۔ اس کی وجہ دونوں کی تند مزاجی کے ساتھ پاک امریکا تعلقات کا انتہا کو پہنچنے والا بگاڑ تھا۔
بھارت نے دہشت گرد اور دہشت گردی کا منتر پڑھ پڑھ کر اپنے تئیں امریکا کو پاکستان سے کلی طور پر کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ بھارتی حکمران پاکستان کو تنہا کیے جانے اور دہشت گردی کا سرپرست ثابت کرنے کی مہم کوکامیاب سمجھ رہے تھے۔ پس منظر میں ٹرمپ عمران ملاقات دنیا کے لیے اہم ہوکر رہ گئی تھی۔ اس دور ے پر مجموعی طور پر افغانستان کا رنگ غالب تھا ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ افغانستان سے پرامن انخلا کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی ہے مگر عمران خان کو پوچھے گئے ایک سوال کے جواب نے پریس کانفرنس کا منظر بدل ڈالا۔ یہ سوال مسئلہ کشمیر پر ثالثی سے متعلق تھا اور عمران خان نے ٹرمپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ان کی خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالث کا کردا ر ادا کریں۔ پاکستانی قوم کی دعائیں صدرٹرمپ کے ساتھ ہوں گی اگر وہ مسئلہ کشمیر حل کرائیں۔ جس پر صدر ٹرمپ نے یہ انکشاف کیا کہ دو ہفتے قبل جاپان کے اوساکا شہر میں G20ملکوں کی کانفرنس کے موقع پر نریندرمودی نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس مسئلے پرثالث کا کردار ادا کرنا چاہیں گے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں مودی سے پوچھا کہاں؟ تو مودی نے جواب دیا کہ کشمیر میں کیوں کہ یہ مسئلے کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ اگر میں مدد کرسکوں اور دونوں ملک چاہیں تو میں بخوشی ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کشمیر اس دورے میں ایک اہم مسئلہ بن کر چھا گیا۔ بھارت میں حسب روایت چیخ وپکار اور آہ وبکا شروع ہوگئی۔ مودی سے وضاحتیں طلب کی جانے لگیں۔ اپوزیشن جماعتیں مودی پر بھارت کے مفادات کو زک پہنچانے کا الزام لگانے لگیں اسے شملہ معاہدے کی نفی کہا جانے لگا جس میں باہمی مسائل کو دوطرفہ بنیادوں پر حل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انتخابی نتائج سے بدحال نہرو گھرانہ بھی لنگر لنگوٹ کس کر مودی پر حملہ آور ہونے لگا۔ راہول گاندھی اور سونیا گاندھی بھی مودی سے وضاحتیں طلب کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش سے اہم بات ان کا یہ انکشاف ہے کہ مودی بھی ان سے ثالثی کی بات کر چکے ہیں۔ امریکا، اقوام متحدہ، چین کئی اسلامی ممالک اور تنظیمیں وقتاًفوقتاً مسئلہ
کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتی چلی آرہی ہیں مگر بھارت اس پیشکش کو یہ کہہ کر مستر د کرتا چلا آیا ہے کہ ا س تنازعے میں تیسرے فریق کا کوئی کردار نہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ بڑی محنت سے وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کے ایوانوں سے تاشقند اور پھر شملہ تک لایا ہے جہاں مرحلہ وار تیسرے فریق کا کردار کم اور پھر ختم ہو گیا اور اب دوبارہ تیسرا فریق اس خیمے میں سردینے میں کامیاب ہوگیا تو مسئلہ پھر عالمی حیثیت حاصل کرلے گا۔ اس لیے بھارت ثالثی کے نام سے خوف کھاتا او بدکتا ہے۔ عملی طور پر شملہ معاہدے کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بھی مسئلہ تیسرے فریق کی ثالثی کے بغیر حل نہیں ہوا۔ کشیدگی کا کوئی دور ہو یاخوش گوار تعلقات کی کوئی مختصرکہانی پردے کے پیچھے کوئی طاقتور کردار ضرور موجود ہوتاہے اور اکثر وہ کردار امریکا ہی رہا ہے۔ ٹرمپ نے مودی کی چوری پکڑ لی کہ ان کے دل میں بھی کسی ثالث کی آمد کی خواہش موجود ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ ٹرمپ کی اس بات کی تردید کر چکی ہے امریکی عہدیدار بھی دھیمے سروں میں تردید کررہے ہیںمگر عمران خان تو اس معاملے سے نکل گئے ہیں اب معاملہ یہ ہے کہ ٹرمپ یا مودی میں سے کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بھارتی نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورت حال میں پھنس گئے ہیں۔ مودی جھوٹا ہے تو پھر ثالثی کی پیشکش موجو د ہے اور ٹرمپ کو جھوٹا کہتے ہیں تو امریکا کے منہ پھٹ اور منتقم مزاج صدر کی توہین ہوتی ہے۔ عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی دعوت دے کر ایک اور چھکا مارا ہے اور اب ٹرمپ اور مودی میں سچ اور جھوٹ کا جھگڑا پڑ گیا ہے۔ اسے پاکستان کی ایک اہم سفارتی کامیابی کہا جاسکتا ہے۔ امریکا کا صدر ٹرمپ کشمیر سے متعلق وہ تمام سبق بھلا بیٹھا جو بھارت کلنٹن کے زمانے سے امریکی صدور کو پڑھاتا ہوا آیا تھا۔