ریسرچ ورک!

185

 

 

سات روزہ ریسرچ ورک پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واجب الاحترام قائم مقام چیف جسٹس پنجاب مامون رشید شیخ نے بالکل درست فرمایا ہے کہ ججوں کے لیے ریسرچ ورک بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انہوں نے ججوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ مقدمات کے فیصلے کرنے سے قبل قانون کا مطالعہ ضرور کریں، کیوں کہ ان کا یہ عمل انصاف کی فراہمی کو یقینی اور حتمی نتیجے سے ہم آہنگ کرنے کا موجب بنے گا۔ انہوں نے جوڈیشل اکیڈمی کے تربیتی کورس کو انصاف کی فراہمی میں ایک باب کا اضافہ قرار دیا، ان کے خیال میں یہ تربیتی کورس ریسرچ ورک میں مہارت کا سبب بنے گا۔ چیف صاحب نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ججوں کو ریسرچ جرنلز کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے کیوں کہ ہمارے قوانین میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ بہت سے اہم مقدمات میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی آبزرویشن آرہی ہے جو اس حقیقت کی متقاضی ہیں کہ ہمیں خود کو اپ ڈیٹ رکھنا ہوگا کیوں کہ جب تک ججز قوانین کے مطابق خود کو اپ ڈیٹ نہیں رکھیں گے مقدمات کا فیصلہ قوانین کے مطابق ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ چیف صاحب نے ریسرچ ورک کو جنرل ٹریننگ پروگرام کا حصہ بنانے کی ہدایات بھی جاری فرمائیں۔ واجب الاحترام جسٹس پنجاب کے اس فرمان سے انکار ممکن نہیں کہ کسی مقدمے کے فیصلے سے قبل اس سے متعلق قانون کا مطالعہ ضرور کیا جائے۔ کیوں کہ انصاف کی فراہمی اس عمل کے بغیر ممکن ہی نہیں مگر المیہ یہ ہے کہ مسند انصاف پر براجمان شخص اپنے ہر فرمان کو مستند قرار دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتیں اس کی خوش گمانی کا سدباب کرنے سے گریزاں ہیں جس کے نتیجے میں غلط فیصلے سنانے والے ججوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بدنصیبی یہ بھی ہے کہ زیر سماعت مقدمے سے متعلق ججز جو چاہیں فیصلہ صادر کریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ احتساب کا خوف نہ ہو تو صحیح اور غلط کی تمیز بے معنی ہوجاتی ہے جو چیز اپنی معنویت کھودے وہ بے وقعت ہو جاتی ہے۔ سیشن کورٹ، ہائی کورٹ کسی بھی شخص کو سزائے موت سنادیتی ہے اور جب مقدمہ عدالت عظمیٰ میں جاتا ہے تو وہاں پر موجود جسٹس صاحبان یہ دیکھ حیران و پریشان ہوجاتے ہیں کہ ایک بے گناہ شخص کو کس قانون کے تحت موت کی سزا سنائی گئی ہے اور پھر… اسے باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بے گناہ شخص کی زندگی کے تیس پینتیس سال جن کے غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئے، عدالت عظمیٰ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ سنایا۔ اس تناظر میں یہ سوچنا کہ ریسرچ اور قانون کا مطالعہ سب بے معنی ہے کیوں کہ یہ عمل اسی وقت بامعنی ہوسکتا ہے جب غلط فیصلے سنانے والے ججوں کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
اس پس منظر میں یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں ایم فل اور قانون کی تعلیم کا مقصد ملازمت اور الائونس کا حصول ہے۔ چیف صاحب کا یہ فرمان قابل تحسین ہے کہ جوڈیشل افسران کے لیے ریسرچ جرنلز کا مطالعہ بہت ضروری ہے کیوں کہ قانون ریسرچ کے بغیر انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ جج صاحبان ریسرچ اور قانون کا مطالعہ تو ایک طرف زیر سماعت مقدمات کی قانونی ریسرچ بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہم سبھی ایسے ججوں سے واقف ہیں جو مقدمات کی فائل بھی پیشی کے دن دیکھتے ہیں اور وکلا اپنے مقدمے سے اپ ڈیٹ ہونے کے لیے مقدمہ کی فائل چیمبر میں دیکھتے ہیں۔ ہم بارہا انہی کالموں میں یہ گزارش کرچکے ہیں کہ جب تک یہ تحقیق نہ کرلی جائے کہ مدعی کے الزامات درست ہیں یا نہیں سمن جاری نہ کیا جائے۔ شنید ہے بھارتی قانون 204 کے تحت الزامات کی تحقیق سے قبل سمن جاری کرنا سنگین جرم قرار دیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں یہ جرم بڑے دھڑلے اور بے خوفی سے کیا جارہا ہے۔