رودادِ سفر

310

 

 

نیویارک میں ماہرِ رضویات ڈاکٹر غفران صدیقی کے فرزند ڈاکٹرحافظ محمد عثمان صدیقی نے اپنے شیخِ طریقت صاحبزادہ پیر قاضی فضلِ حق رضوی، سجادہ نشین آستانۂ عالیہ محدث اعظم پاکستان فیصل آباد کے ایما پر استقبالیے کا اہتمام کیا، جس میں علامہ مقصود احمد قادری، ڈاکٹر علامہ شہباز احمد چشتی، علامہ مدثر حسین، محترم سید صفدر شاہ، مفتی اولادِ رسول، سید میر حسین شاہ، مولانا قاری محمد عثمان، مولانا مقصود رضوی، مولانا خالد رضا، قاری فقیر محمد مسعودی، حافظ محمد طارق، مولانا بشیر رضوی، چودھری پرویز، خاور بیگ، محمد افضل باجوہ، ملک ناصر، محمد اصغر چشتی، شفیق محمود اور میڈیا سے وابستہ حضرات ارشد چودھری، محسن ظہیر، مجیب لودھی، منظور حسین اور دیگر ممتاز مقامی شخصیات نے شرکت کی۔ اس استقبالیے میں علمائے کرام نے میرے لیے نیک جذبات کا اظہار کیا اور القاب تجویز کیے۔ میں نے عرض کیا کہ میں ایک عاجز بندہ ہوں، آپ کے ان جذبات اور تجاویز کو حسنِ ظن پر محمول کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کے حسنِ ظن کو میرے لیے دعائے مستجاب بنادے۔
نیز میں نے گزارش کی کہ ہم سو ڈیڑھ سو سال پہلے سے جاری بریلوی دیوبندی اختلافات کے حصار سے باہر نکل نہیں پارہے، ہماری مثال کنویں کے مینڈک کی سی ہوگئی ہے، مناظرین اور پیشہ ور خطباء کا میدانِ کارزار بھی یہی ہے اور ایک خاص تعداد روایتی مسلکی سامعین کی بھی ہوتی ہے، تکفیری کلچر کی اب مارکیٹ نہیں رہی، یہ مسائل اب نظری رہ گئے ہیں، عملی نہیں رہے، اگرچہ نظریاتی اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور سب اپنے اپنے معمولات پر عمل پیرا ہیں۔ اس محدودیت کے سبب ہم دین، امت اور ملّت کے دیگر مسائل سے لاتعلق رہتے ہیں اور اسی سبب ہمارے مطالعے میں وسعت نہیں پیدا ہوتی، جبکہ امیر مینائی نے ملّت اور انسانیت کے درد کے احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
نیز لبرل ازم، آزاد روی، اَخلاق باختگی اور تجدُّد کے فتنے اپنے جلوے دکھا رہے ہیں، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا نے دینی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کی گرفت کو کمزور کردیا ہے، بحیثیت ِ مجموعی ہمارا نظام اب دین اور دینی اقدار کا محافظ نہیں رہا۔ اسی کا اثر ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں بعض ایسے بِل پاس ہورہے ہیں یا مختلف قانونی مراحل میں ہیں کہ جن میں بہت سی باتیں اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے حوالے سے پاکستان میں ایسی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جو مغرب اور غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہیں، مثلاً: دنیا کے کسی غیر مسلم ملک میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ اگر کوئی دس تا پندرہ سال کا لڑکا یا لڑکی اپنی آزادانہ مرضی سے توحید ورسالت کی شہادت دے کر اسلام میں داخل ہونا چاہے، تو اُسے اس کی اجازت نہیں دی جائے گی تاوقتیکہ اُس کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے، پھر اُسے تقابلِ ادیان سے آگہی دی جائے اور پھر اس سے اُس کی رضا معلوم کی جائے۔ اسی طرح خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کے عنوان سے ایک ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس ہوچکا ہے، اس میں بعض دفعات خطرناک مضمرات کی حامل ہیں، لیکن ہمارے علماء اور ارکانِ پارلیمان کو ان کی سنگینی اور دیرپا اثرات کا احساس تک نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کے حفظ کی سعادت کو بدعت قرار دیا جارہا ہے، جبکہ اس کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں بے شمار ترغیبات موجود ہیں، لیکن اُن کی تاویلِ فاسد کی جارہی ہے۔ خود امریکا میں ہماری نئی نسل تجدُّد پسندی اور لبرل ازم کے ان افکار سے متاثر ہورہی ہے اور علماء اور نئی نسل میں ایک ابلاغی خلیج (Communication Gap) حائل ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان سے جو مبلّغین آرہے ہیں، وہ روایتی خطابات کرتے ہیں اور یہاں کے سینئر بزرگ اُن کے روایتی سامعین ہوتے ہیں، وہ محظوظ ہوتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، نوٹ پھینکتے ہیں اور عشقِ مصطفیؐ کے سستے خریدار بن جاتے ہیں، کیونکہ امریکا اور یورپ میں تیس سال گزرنے کے باوجود وہ اپنے ماضی کی روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔ پس اس صورتِ حال کا پوری گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور حکمتِ عملی کو ازسرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اسی لیے بعض آزاد خیال لوگ طعن کرتے ہیں کہ ہمارے علماء غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے خود مسلمانوں کی ڈائون سائزنگ میں لگے رہتے ہیں۔
گزشتہ دو کالموں میں، میں نے اپنی علمی بساط اور معلومات کے مطابق خواجہ سرائوں کے تحفظ کے ایکٹ کے مضمرات کے بارے میں قارئینِ کرام بالخصوص نوجوان علماء کو آگہی دینے کی کوشش کی تھی، اس کا تکملہ اور تتمہ پیشِ خدمت ہے:
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس کے لا اسکول کے ولیمز انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق سات لاکھ امریکی ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جنس وہ نہیں ہے جو ان کی پیدائش کے وقت تھی، سو وہ اسے تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر 2015 کی رپورٹ کے مطابق شاید ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ایسے ہی لوگوں کو Transgender کہا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلے کو آج کل کے ماہرینِ نفسیات Gender Dysphoria کہتے ہیں۔
وکی پیڈیا کے مطابق جینڈر ڈائسفوریا کا مطلب ہے: ایک شخص پیدائشی طور پر جس جنسی ساخت پر پیدا ہوا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے جنسی تشخّص سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جو لوگ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں، وہ ایک خاص قسم کے Transgender ہیں۔ دو جڑواں افراد کے مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ جینڈر ڈائسفوریا کے نہ صرف نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں، بلکہ حیاتیاتی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ جنس تبدیل کرانا ایک پیچیدہ عمل ہے، ایک سروے کے مطابق ان میں سے تقریباً پچاس فی صد لوگ جنس تبدیل کرانے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے ماہرِ نفسیات سے رابطہ کیا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کا علاج کرتا ہے اور World Professional Assocation for Transgender Health سے منسلک ہے۔پھر ماہرِ نفسیات پہلے اس کے ذہن کو تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے اور اس کو ایسے طریقے بتاتا ہے کہ سوسائٹی میں رہتے ہوئے کیسے لوگوں کو یقین کروائے کہ اس کی جنس وہ نہیں ہے جس کے ساتھ وہ پیدا ہوا تھا، بلکہ درحقیقت وہ ہے جو اس کا ذہن اس کو بتاتا ہے۔ پھر وہ اپنی پیدائشی ساخت سے متضاد جنس کی طرح کپڑے پہننا شروع کرتا ہے اور لوگوں سے بھی کہتا ہے کہ اس کو اسی جنس سے مخاطَب کریں اور عام طور پر اپنا نام بھی تبدیل کرکے متضاد جنس کے مطابق رکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ Endocrinologist یعنی وجود کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ماہر یاجنسی ہارمونز کے اسپیشلسٹ کے پاس جاتا ہے، اگر مرد عورت بننا چاہتا ہے تو وہ نسوانی ہارمونز پینا شروع کردیتا ہے، اس سے اس کے پٹھے نرم ہوجاتے ہیں، چھاتی کا سائز بڑھ جاتا ہے، جسم کے بال جھڑ جاتے ہیں اور Testosterone ہارمونز کا لیول کم ہوجاتا ہے، ہارمونز سے مراد ایک سیال مادہ ہے جو غدود سے نکل کر خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ اگر عورت مرد بننا چاہتی ہے تو مردانہ ہارمونز یا Androgens لیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے پٹھے مضبوط ہوجاتے ہیں، حجم بڑھ جاتا ہے، جسم اور چہرے پر بال اگنا شروع ہوجاتے ہیں، آواز مردانہ ہوجاتی ہے اور نسوانی عضو بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ Androgens سے مراد وہ مادہ جو عورت میں ثانوی مردانہ خصوصیات پیدا کرتا ہے۔ اس طریقۂ علاج میں تقریباً تین ماہ سے پانچ سال تک لگ سکتے ہیں۔ یہ سرجری پیچیدہ ہوتی ہے، اس قسم کی سرجری کے ناکام ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور پیچیدگیاں بھی بہت ہوتی ہیں، مگر اس کے باوجود وہ اس قسم کی سرجری کراتے ہیں۔ WPATH کے مطابق چند فی صد اشخاص ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد پچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں اور واپس اسی جنس کو اختیار کرنا چاہتے ہیں جس پر وہ پیدا ہوئے تھے۔ امریکا میں یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور Transgender کی اصطلاح اسی قسم کے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، ڈاکٹر خالد اعوان صاحب نے اسی کو ’’تغییرِخَلق‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنے سے تعبیر کیا ہے جو قرآنِ کریم کی رُو سے شیطانی عمل ہے۔
موجودہ دور میں فضا تلبیسِ ابلیس اور شیطانی ترغیبات کے لیے زیادہ سازگار ہے، جنسی اور سفلی جذبات پر برانگیختہ کرنے کے لیے بصارت وسماعت کے لیے ہرسو چراگاہیں کھلی ہیں۔ ایسے ماحول میں بطورِخاص مغربی ممالک میں نوجوانوں کا بڑی تعداد میں اپنی دینی اور اخلاقی اَقدار پر قائم رہنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے، کیونکہ وہاں نئی نسل میں بے راہ روی عام ہے، سو جب میں وہاں اسلامی مراکز اور بعض خاندانوں میں نوجوان لڑکیوں کو حجاب میں اور نوجوان لڑکوں کو دینی وضع میں دیکھتا ہوں تو دل سے اُن کے لیے دعائیں نکلتی ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ اُن میں سے ہر ایک کا استقبال گلے میں ہار ڈال کر کیا جائے، اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں دعائوں سے نوازا جائے، اسی طرح ہمارے بعض نوجوان جدید تعلیم کے میدان میں قابلِ فخر پیش رفت کر رہے ہیں، اُن کی بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ امریکا اور مغرب میں اسکول گریجویشن تک تو تعلیم مفت ہے، لیکن اس کے بعد مختلف پیشہ ورانہ شعبوں میں یونیورسٹیوں کی سطح تک فیسیں بہت زیادہ ہیں، اعلیٰ مشاہرہ پانے والے آئی ٹی کے ایک پی ایچ ڈی پروفیسر نے بتایا: ’’جب میں اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرتا ہوں تو جیب خالی ہوجاتی ہے، حالانکہ اُن کو جزوی طور پر اسکالر شپ بھی مل رہا ہے، اُن کے بچے امریکا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم پارہے ہیں‘‘۔ سو امریکا میں مقیم ایسے جوہرِ قابل نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اہلِ ثروت کو ایک تعلیمی فنڈ قائم کرنا چاہیے۔