حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنی حکومت کا تقریباً ایک سال پورا ہونے پر یوم تشکر منایا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پارٹی کے کارکن اور عہدیدار عمران خان کے امریکی دورے پر شادیانے بجا رہے ہیں، کوئی اُن کے قومی لباس کی تعریف کررہا ہے، کوئی اس پر فخر کررہا ہے کہ عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے، کوئی اُن کے کرسی پر بیٹھنے کے انداز پر خوش ہے۔ چارٹرڈ طیارے لینے کے بجائے نجی ائر لائن سے سفر کرنے کی بھی دھوم مچی ہوئی ہے۔ مہنگے ہوٹل پر ٹھیرنے کے بجائے پاکستان ہائوس پر قیام کرنا بھی ایک مستحسن قدم ہے۔ ایرینا اسٹیڈیم میں بڑے اجتماع سے خطاب کرنے کو بھی پاکستان میں سراہا جارہا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے اور بھارت میں کہرام مچا ہوا ہے۔
لیکن اگر ہم تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں سے ہٹ کر عام پاکستانی کی بات کریں تو وہ روزاہ کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہے، کبھی بجلی اور گیس کے بل کو دیکھتا ہے تو کبھی وہ روزانہ استعمال ہونے والی کھانے پینے کی چیزوں کے نرخ کو دیکھتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اسے اپنی ملازمت کے ختم ہوجانے کا بھی ڈر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جولائی 2018ء کے مقابلے میں جولائی 2019ء میں پاکستانی معیشت جن خطرات و مشکلات میں گھری ہوئی ہے وہ کم ہونے میں نہیں آرہے۔ پچھلے سال معاشی ترقی کی رفتار 5.8 فی صد تھی جو اب 3.3 فی صد ہوگئی ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافے کی شرح 3.8 فی صد تھی اور تمام اہم فصلوں، کپاس، چاول، گندم کی بہترین پیداوار ہوئی تھی اس سال یہ شرح صرف 0.85 فی صد رہ گئی ہے اور تمام فصلوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے اور کھاد اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے آئندہ کے حالات بھی اچھے نہیں۔ صنعتی پیداوار میں ترقی کی شرح پچھلے سال 6.2 فی صد تھی جو اب 1.4 فی صد ہے۔ گزشتہ سال مہنگائی کی شرح 5.3 فی صد تھی، اس وقت 8.5 فی صد ہے۔ کاروبار، تجارت اور صنعت کے لیے بنیادی شرح سود 6.25 فی صد تھی جو اس وقت 13.25 فی صد ہے۔ پچھلے سال پاکستان میں 2.1 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی، اس سال ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ پٹرول کی قیمت 91 روپے فی لٹر تھی، آج کل 113 روپے فی لٹر ہے۔ قومی بچت اسکیم کے تحت پنشنرز اور بیوائوں کی خصوصی اسکیم پر منافع میں 20 فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس لگادیا گیا ہے۔
بڑے پیمانے کی صنعتوں (Large Scde Manu Factoriy) میں پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال 3.78 فی صد پیداوار کم ہوئی ہے جب کہ حکومت اس سال کے لیے 8.1 فی صد اضافے کا ہدف لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ خصوصاً چمڑا، کھاد، ادویات سازی، کیمیکلز کی صنعتیں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ کیا یہ تمام صنعتیں اپنے زائد مزدوروں کو فارغ نہیں کریں گی، اسی طرح بھاری شرح سود اور روپے کی قدر میں 34 فی صد کمی کی وجہ سے کاریں بنانے والے کارخانے (ہنڈا، پاک سوزوکی اور ٹویوٹا) اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اس طرح 1300 سی سی یا اس سے بھاری گاڑیوں کی قیمتوں میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ چناں چہ گاڑیوں کے خریدار کم ہوگئے ہیں اور یہ تمام کارخانے ہفتے میں دو دن اور چار دن اپنا پلانٹ بند کردیتے ہیں۔ اس سے روزانہ کام کرنے والے مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ مزید یہ کہ تمام چھوٹی صنعتیں جو ان گاڑیوں کے پارٹس بناتی تھیں اُن کی پیداوار بھی کم ہوگئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بے روزگاری کس خوفناک انداز میں پھیلے گی اور غریب آدمی کا کیا حشر ہوگا۔
حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فی صد کا اضافہ کیا ہے اور اب شرح 13.25 فی صد ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے پورے اثرات معاشی تجزیہ کاروں کے نزدیک دو سے تین ماہ میں ظاہر ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت جو مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت حال نظر آرہی ہے اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ایک پریشان حال پاکستانی کس طرح تحریک انصاف کے جذباتی اور جوشیلے کارکنوں کا ساتھ دے سکے گا۔