فواد چودھری کی معجون فلک سیر

344

 

 

بالآخر خلائی مخلوق والی کہانی کا سرا ہاتھ آ ہی گیا۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اعلان کیا ہے کہ 2022ء میں پہلا پاکستانی خلا میں جائے گا۔ فواد چودھری وزارت اطلاعات یا میڈیا کی وزارت میں نہیں ہیں لیکن خبروں میں رہنے کا فن سیکھ گئے ہیں۔ فواد چودھری کے اعلان سے ایک پرانی کہاوت یاد آگئی… بلکہ یہ ڈائیلاگ ہے جو کسی پاکستانی ڈرامے میں بولا جاتا تھا۔ ڈائیلاگ بولنے والا کہتا تھا۔
اوخیر… معجون فلک سیر… پی ٹی آئی کا اس کے سربراہ ‘وزرا اور ہمنوائوں کا معجون فلک سیر سے بڑا گہرا… یا اُونچا تعلق ہے۔ کبھی بنی گالا مارکہ شہد معجون فلک سیر بنتا ہے اور کبھی خود صاحب معجون فلک سیر خریدتے نظر آتے ہیں۔ خلائی مخلوق کا ذکر 2018ء کے انتخابی نتائج کے فوراً بعد شروع ہوا اور جب جب یہ ذکر کم ہونے لگتا ہے خلا سے تعلق رکھنے والا کوئی نہ کوئی وزیر یاد دلادیتا ہے۔ فواد چودھری تو ہیں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر، انہوں نے شوشا چھوڑا ہے کہ 2022ء میں پہلا پاکستانی خلا میں جائے گا۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ کیسے… معجون فلک سیر کے ذریعے یا خلائی مخلوق اسے لے کر جائے گی۔ جس زمانے کا یہ ڈائیلاگ ہے معجوں فلک سیر… اس زمانے میں ڈرامے ایسے نہیں ہوتے تھے جیسے آج کل خلائی مخلوق والے چلا رہے ہیں اب تو فواد چودھری، فیصل واوڈا اور عاشق اعوان کے ڈرامے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بہرحال چودھری صاحب کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ایک تبصرہ بھی کیا ہے کہ ملک کے فسادی سیاستدانوں کو بھی خلا میں لے جائوں گا اور ان کی واپسی کا راستہ نہیں ہوگا، یعنی وہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ ہمارے خیال میں چودھری صاحب کو پہلی فلائٹ یا لانچنگ میں خود میزبان کے طور پر جانا چاہیے اور تمام فسادی سیاستدانوں کو ساتھ لے جانا چاہیے۔ استحقاق تو ان کا بھی وہی بنتا ہے جو دوسروں کے بارے میں فرما رہے ہیں۔ چاند سے لے کر علما اور اسلام کے اصولوں تک جتنا فساد انہوں نے برپا کیا ہے اس کی روشنی بلکہ اندھیرے میں چودھری صاحب بھی خلا میں جائیں۔ بلکہ چودھری صاحب ہی جائیں۔
خلائی منصوبوںپر ڈیم یاد آگیا۔ جناب ثاقب نثار نے بھی چندے لے کر ڈیم بنانے اور ڈیم کے سامنے جھونپڑی ڈالنے اور وہاں رہنے کی بات کی تھی۔ ڈیم بنے نہ بنے ان کی جھونپڑی تو اتنے چندے میں بن سکتی ہے اس کا رقبہ حسب ضرورت ہوگا اور نام ڈیم ہٹ ہی ہوسکتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت چودھری فواد کو بھی خلا میں گھر بنا کر رہنا چاہیے۔ اگر وہ پاکستانیوں کو خلا میں لے جانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے خود جائیں وہاں اپنا گھر بنائیں اور خلا میں بننے والے گھر کا بہترین نام ’’بیت الخلا‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ چودھری صاحب نے ایسا شوشا چھوڑا جس کی وجہ سے وہ تو میڈیا میں آگئے ہیں لیکن یہ بھول گئے کہ خلائی مخلوق کے ہاتھوں بننے والی حکومت پہلے ہی خلا میں ہے۔ مہنگائی کے کوڑے بلکہ بم برسا کر عوام کی حالت ایسی کردی ہے کہ وہ کسی معجون کے بغیر خلا میں پہنچ گئے ہیں۔ اور حکمران پتا نہیں کن خلائوں میں ہیں کہ ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے دعوے کررہے ہیں۔ ہم عموماً سوشل میڈیا کو سند بنانے سے کتراتے ہیں لیکن اس کے حوالے سے کبھی کبھی دلچسپ چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔ آج کل خلائوں میں رہنے کی بات ہورہی ہے تو ایک لطیفہ سوشل میڈیا پر گشت کررہا ہے کہ ایک میراثی کو چودھری صاحب نے ڈیرے پر طلب کیا، اس سے مالش وغیرہ کرائی، مکیاں لگوائیں اور چند جگتیں بھی سنیں۔ رات دیر گئے گھر پہنچا تو بیگم نے سوال کیا کہاں سے آرہے ہو اتنی دیر میں… میراثی نے فخر سے کہا کہ چودھری صاحب کے ڈیرے کا کامیاب دورہ کرکے آرہا ہوں… یہ لطیفہ بھیجنے والے کمبختوں نے یہ لکھ مارا کہ اس لطیفے کا دورہ امریکا سے کوئی تعلق نہیں…
خیر یہ تو سوشل میڈیا کی باتیں ہیں جو غیر سنجیدہ بھی ہوتی ہیں لیکن کیا فواد چودھری صاحب کو سنجیدہ لوگوں میں شمار کیا جاسکتا ہے؟۔ جس قسم کی گفتگو وہ کرتے ہیں اس کی روشنی میں تو انہیں پہلی فلائٹ سے خلا میں بھیج کر ان کا گھر بنادیا جائے۔ ان کی خلا نوردی سے ان کو بھی فائدہ ہوگا اور ملک و قوم کا بھی بھلا ہوگا۔ علم میں اضافے کا اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اضافے کے لیے پہلے سے کچھ علم ہونا ضروری ہے۔ ابھی خلائی سفر کی بات ہورہی تھی کہ تین نسلوں کو تعلیم دینے والے عرفان صدیقی صاحب سنگین جرم میں دھرلیے گئے۔ اتنا سنگین جرم کہ اللہ کی پناہ… قانون کرایہ داری کے تحت کسی کو مکان کرایے پر دیتے وقت تھانے کوایک ماہ کے اندر کرایہ دار کے کوائف سے آگاہ کرنا مالک مکان کا فرض ہے، لیکن یہ کام تو پورا ملک کررہا ہے۔ وزیراعظم ہائوس، وزیراعلیٰ اور گورنر ہائوسز کے مکینوں کو کرایہ پر مکانات دینے والوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں کرایہ داروں کے کوائف جمع نہیں کرائے۔ خصوصاً اسٹیٹ بینک میں جو صاحب کرایہ دار ہیں ان کے کوائف بہت ضروری ہیں۔ خزانے کے مشیر، اور ایف بی آر والے کے کوائف فوراً جمع کرائے جائیں۔