نیرنگیٔ سیاستِ ’’زرداری‘‘ دیکھیے!

409

آج ہم اپنے ’’خزنیۂ اوراق‘‘ (Archives) کی ورق گردانی کر رہے تھے تو آج سے سات برس قبل کا چھپا ہوا ایک کالم ہاتھ آگیا۔ یہ کالم کسی اور اخبار میں چھپا تھا۔ اب اس کالم پر کامل سات سیاسی برس گزر چکے ہیں۔ مگر ’’نیرنگیٔ سیاست ِ دوراں‘‘ ہے کہ گزر کر نہیں دے رہی۔ سو، آج اسی کالم پر گزارا کیجیے:
زرداری صاحب کی سیاست نے سب کو مات دے دی ہے!
ہم صدرِ پاکستان کی بات نہیں کررہے ہیں۔ جو بلاشرکت ِ غیرے وطن عزیز اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں، جو ملک کے سب سے بڑے منصب کے اکلوتے ’’کرسی نشین‘‘ ہیں۔ اِس وقت تو ہم ایک ’’سیاست دان‘‘ کی بات کررہے ہیں۔ جو ہمارے ملک کی ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے ’’شریک صدر نشین‘‘ ہیں۔ یہ شراکت اُنہوں نے اپنے بیٹے بلاول کے ساتھ ’صدر نشینی‘ میں کر رکھی ہے۔
کچھ عرصہ قبل پی ٹی وی سے عطاء الحق قاسمی کا تحریر کردہ، ادبی چاشنی لیے ہوئے، ایک دلچسپ ڈراما ’’خواجہ اینڈ سن‘‘ نشر ہوا کرتا تھا۔ زرداری صاحب بھی خاصے باذوق آدمی معلوم ہوتے ہیں کہ اُس ڈرامے سے متاثر ہوئے اور اُنھوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کا عنوان بھی ’زرداری اینڈ سن‘ رکھ لیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ بھی زرداری صاحب کی ’سیاست‘ ہے۔ ہماری خالہ خیرن تک کہا کرتی ہیں کہ:
’’میں تو اتنا جانوں ہوں کہ پارٹی کی قیادت کو گھر کی لونڈی بنانے کے لیے، وِن نے اپنے لونڈے کی آڑ لی ہے‘‘۔
تشریح اِس اجمال کی وہ یہ کرتی ہیں کہ اگر پارٹی کی صدر نشینی بھی وہ ’’بلاشرکتِ لونڈے‘‘ اپنے پاس دھر لیتے تو لوگ باگ الزام دھرتے:
کہ ’’پی پی‘‘ نام تھا جس کا گئی وہ بھٹو کے گھر سے
اب گھرکی بات گھر ہی میں رہی۔ کیوں کہ بھٹو کا نواسا جو گھر میں موجود تھا۔ اُس کو مزید ’’بھٹوائز‘‘ کرنے کے لیے اسلامی اور سندھی روایات کے علی الرغم، دادا کے نام سے پہلے نانا کا نام جوڑ کر عزیزم بلاول زرداری کا نام… اُن کے ’’تبدیلی ٔنام‘‘ کا سیاسی اعلان کرتے ہوئے… ’’بلاول بھٹو زرداری‘‘ رکھ لیا گیا۔ یوں بے چارا اور دُکھیارا بلاول دو قبیلوں میں تقسیم ہو گیا۔ قبائلی نظام رہے گا تو اقتدار پسندوں کو اسی طرح تقسیم کرتا پھرے گا۔ ہمیں نہیں معلوم ہو سکا کہ اس تقسیم کو دونوں قبیلوں نے قبول کرلیا یا دونوں ہی نے رد کر دیا۔
سیاسی وراثت میں نواسوں کی شمولیت اِس برصغیر کی ایک حاکمانہ روایت رہی ہے۔ اندراگاندھی سے اپنی مماثلت کا اظہار کرتے ہوئے ’’برصغیر‘‘ کو بھٹو مرحوم اپنی پُرجوش عوامی تقریروں میں ’’بڑی سگیر‘‘ کہا کرتے تھے۔ اُن کی ایک مشہور تقریر کا ایک تاریخی ٹکڑا نقل کرتے ہیں:
’’او مائی… او… اندرا گاندھی… ہم بھی اِسی ’’بڑی سگیر‘‘ میں رہتے ہیں … تُم بھی اِسی ’’بڑی سگیر‘‘ میں رہتے ہو …‘‘
’’بڑی سگیر‘‘ میں رہنے والی اندرا گاندھی تو خیر پنڈت جواہر لال نہرو کی اکلوتی ’’اولاد‘‘ تھیں۔ اِس مجبوری کے باعث پنڈت نہرو کی سیاسی وراثت اُن کے نواسوں ہی کے ہاتھ آئی۔ جب کہ ’’ہندو قانونِ توارث‘‘ میں بیٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آتا… جز آہِ سحرگاہی۔ اِلٰہ آباد کے باسی پنڈت نہرو کی سیاسی وراثت جب اوّل اوّل بنتِ نہرو کے ہاتھ آئی تو اِس پر مرحوم مزاح نگار ابوظفر زین نے مارے خوشی کے اکبرؔ اِلٰہ آبادی کے ایک شعر میں تحریف کر ڈالی:
اُس کی بیٹی نے اُٹھا رکھی ہے دنیا سر پر
خیریت گزری کہ ’’نہرو جی‘‘ کے بیٹا نہ ہوا
(جن قارئین کو اکبرؔ کا اصل شعر جاننے کا تجسس ہو وہ فقط دوسرے مصرع میں ’’نہروجی‘‘ کی جگہ ’’انگور‘‘ پڑھ لیں) نہرو جی کے تو خیر بیٹا نہ ہوا۔ پَر اسی ’’بڑی سگیر‘‘ میں رہنے والے بھٹو جی کے بیٹے بھی ہوئے اور پوتا پوتی بھی۔ سیاسی ورا ثت مگر پوتے کے ہاتھ آئی نہ پوتی کے۔ سب کچھ بھٹوصاحب، بلکہ نصرت بھٹو صاحبہ، کا داماد لے اُڑا۔ نصرت بھٹو نے داماد بھی خوب چُنا۔ ان کے سمدھی حاکم علی زرداری، بھٹو صاحب کی زندگی میں نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈر تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کو بھٹو صاحب نے غدارِ وطن قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی تھی اور اس کے رہنماؤں کو جیل میں بند کر دیا تھا۔ بہر حال آصف علی زرداری ابن حاکم علی زرداری نے بڑی ’’سیاست‘‘ کے ساتھ ساس، سالے، سالی اور دیگر اہلِ سسرال (یعنی بھٹو صاحب کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو سمیت) اپنے تمام ’’اِن لاز‘‘ کو ’’آؤٹ لاز‘‘ کرکے رکھ دیا۔
ہاں تو ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ زرداری صاحب کی ’’سیاسی مہارت‘‘ کے سب قائل ہوئے۔ جب وہ برسراقتدار آئے تھے تو سب کے سب اُن کی مٹھی میں تھے۔ کیا مسلم لیگ (ن)، کیا عوامی نیشنل پارٹی، کیا جمعیت علمائے اسلام (ف) اور کیا ایم کیوایم۔ اُنھوں نے اپنی خاموش اور ’’متبسم‘‘ سیاسی حکمت عملی سے سب کو ’’گندا‘‘ کردیا اور کسی کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ یہاں تک کہ اُنھوں نے قاف لیگ کو بھی جسے وہ ’’قاتل لیگ‘‘ کہا کرتے تھے، اپنی دسترس (بلکہ دستبرد) میں لاکر بڑی چابک دستی سے سیاست کے کوڑے دان میں ڈال دیا۔ خود پارٹی کے اندر بھی اُنھوں نے جس سے چاہا جان چھڑالی۔ اور جب چاہا پاس بلاکر ’’اعتزاز ایسے جاٹ‘‘ کی بھی ’’عزتِ سادات‘‘ گنوائی۔ صرف چند ہی لوگوں سے اُن کی یاری ہے۔ تاہم یاروں میں سے بھی فاروق نائک اور بابر اعوان کے بعد اب سُنا ہے کہ وزیراعظم (گیلانی) کی باری ہے۔
پر یہ مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب تو زرداری کے بھی چچا نکلے۔ اُنھوں نے ایک ریٹائرڈ جنرل ہی کی نہیں، جسے بی بی نے ’’تمغۂ جمہوریت‘‘ سے نوازا تھا، ملک کے تمام سیاست دانوں اور تمام سیاسی جماعتوںکی (بشمول پی پی) یکمشت خاک اُڑا کررکھ دی ہے۔ بلکہ سب کی مشتِ خاک، اپنی مشتِ ناپاک میں لے کر:
’’رشوت‘‘ کا اُس میں آبِ نجس بھی ملا دیا
یوں ایک ساتھ سب کی ’’مٹی پلید‘‘ کرکے رکھ دی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ: ’’رشوت کا کوئی ثبوت نہیںہوتا‘‘۔
اُنھوں نے خود بتایا کہ جب میں عدالت سے واپس آتا تو زرداری صاحب سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھے ہوتے اور ہمیشہ مجھ سے کہتے:
’’اوئے چاچے کہاں ہے؟‘‘
میں کہتا: ’’یہیں ہوں!‘‘
ممکن ہے کہ اُس وقت چاچے بھتیجے کو ایک دوسرے کا ’’محل وقوع‘‘ جاننے کی ضرورت پیش آتی رہی ہو۔ مگر اب چاچے کو بھی معلوم ہے کہ بھتیجا کہاں سے کہاں جاپہنچا ہے اور بھتیجے کو بھی معلوم ہے کہ چاچا کہاں ہے۔ بلکہ عدالت، خبروں، خبرناموں اور اخباروں سمیت کہاں کہاں نہیں؟ چاچے نے مزید کہا: ’’میں انٹرمیڈیٹ ہوں۔ کسی کام کے لیے تعلیم کی نہیں، عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں چھوٹا آدمی ہوں۔ ایک کلرک کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ ایک انٹر شخص نے بینک کھڑا کردیا‘‘۔
بینک ہی نہیںکھڑا کردیا۔ ’’ایک انٹر شخص‘‘ نے ہماری پوری دُنیائے سیاست میں ہنگامہ بھی کھڑا کردیا۔ کس کس کا اُنھوں نے نام نہیں لیا؟ نہیں لیا تو بس ایک ہمارے آفاق بھائی کا نہیں لیا۔ آفاق بھائی نے یہ دیکھ کر دِل میں سوچا: ’’یہ پاپی دُنیا تو مجھے سیاست دان مانتی ہی نہیں‘‘۔
چناں چہ اِس ’’پاپ‘‘ میں وہ خود ہی کود پڑے اور کہا:
’’الطاف حسین نے مرزا اسلم بیگ سے میری موجودگی میں رقم مانگی تھی۔ میں نے بھی پچاس لاکھ روپے لے لیے‘‘۔
اُنھوں نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا:
’’جب میں نے ایم کیو ایم حقیقی کی بنیاد رکھی تو یونس حبیب سے یہ کہہ کر پچاس لاکھ روپے حاصل کیے کہ تُم ملک دشمنوں کو کروڑوں روپے دے سکتے ہو (کروڑوں سے آفاق بھائی کی مراد صرف 2کروڑ روپے ہے) تو مجھے کیوں نہیں دے سکتے۔ سپریم کورٹ مجھے بلائے گی تو میں عدالت میں حلفیہ بیان بھی دوں گا۔ میں منافق نہیں ہوں۔ کسی کو دھوکا نہیں دوں گا‘‘۔
صاحبو! دھوکا تو کسی سیاست دان کے ساتھ نہیںہوا۔ صرف عوام کے ساتھ ہوا ہے جن کی رقوم سے مہران بینک ’’کھڑا‘‘ تھا۔ مگر عوام کا تو اِس پورے قصے میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔
القصہ مختصر۔ زرداری صاحب نے ’’کھپے کھپے‘‘ کر کے وہ داؤ پیچ لڑائے کہ بی بی اور اُن کے جن ساتھیوں نے مشرف سے ’’این آر او‘‘ کیا تھا، وہ اپنی جان کھپا کھپا کرکنا رے لگ گئے۔ اور اب دُور بیٹھے زرداری صاحب کو وہیں سے دیکھ دیکھ کر ہاتھ مَلاکرتے ہیں:
نیرنگیٔ سیاستِ ’’زرداری‘‘ دیکھیے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
پسِ نوشت: آج ہم نے اس کالم کا گڑا مُردہ یوں اُکھیڑا کہ پچھلے دنوں کسی نے امیر جماعت اسلامی پاکستان، سینیٹر سراج الحق سے پوچھا:
’’اگر آپ حکومت کے ساتھ نہیں ہیں تو حزبِ اختلاف کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟‘‘
سراج صاحب نے جو جواب دیا اُس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ:
’’چوروں کے ساتھ مل کر چوروں کے خلاف لڑنے کا فائدہ صرف چوروں کو ہوتا ہے۔ ہم بہت نقصان اُٹھا چکے‘‘۔