مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب

228

ترک صدر رجب طیب اردوان کی یہ تجویز موجودہ حالات میں تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے جس کے مطابق مسلمان دنیا کے تین ممالک ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کردار ادا کرنے پر اتفاق کرنا چاہیے۔ طیب اردوان نے یہ تجویز ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو دورہ ٔ ترکی کے دوران ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پیش کی۔ طیب اردوان کی اس تجویز کی حمایت ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بھی۔ دونوں ملکوں کا اتفاق تھا یہ تین مسلمان ملک اپنے کندھوں پر اسلامی ثقافت اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا بار گراں اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ترکی میں بلند ہونے والی ان صدائوں کے دوران ہی طیب اردوان نے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کرکے اس تجویز کو عملی شکل دینے کے ساتھ مسلمانوں کے دوسرے مسائل اور دوطرفہ تعلقات پر بھی بات کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترک صدر کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور اسے وقت کی ضرورت قرار دیا۔
اسلامی ثقافت کی تعمیر نو اور تشکیل نو کی تجویز اور مجوزہ معاہدے کے خدوخال ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئے ظاہر ہے کہ ابھی یہ معاملہ تجویز کے مرحلے میں ہے مگر طیب اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ذہن میں اس کا نقشہ اور تصور واضح ہوگا۔ مسلمان دنیا کے مذکورہ دونوں راہنما بھی ایک ٹھوس نظریاتی شناخت اور اساس رکھنے والے مسلمان حکمرانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مسلمان عوام کے مسائل ومعاملات پر ان کا وژن بھی واضح ہے۔ اسی طرح عمران خان اپنے ہر خطاب میں ریاست مدینہ کا حوالہ دے کر اپنی سوچ وساخت کا برملا اظہار کرتے ہیں ان کے ذہن میں بھی جدید ریاست کا تصور مدینہ کی شہری ریاست سے مستعار لیا گیا ہے۔ او آئی سی کے اجلاس میں انہوں نے فلسطین کے دو ریاستی حل اور گولان کی پہاڑیوں کے مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہونے کی بات دوٹوک انداز میں کی تھی۔ یہ وہ بات ہے جو خود عرب حکمران بھی زبان پر لانے سے گریزاں رہتے ہیں کیوںکہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو یہ بات گوارا نہیں ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ او آئی سی کے تمام رکن ممالک اپنے سمت کا واضح تعین کرتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سرگرم کردار ادا کرتے مگر مسلمان دنیا میں جو تقسیم بری طرح اُبھار دی گئی اس میں فی الحال ایسی کسی بھی اجتماعی کوشش کے آغاز اور بارآور ہونے کا امکان نہیں مگر مسلمان دنیا کے تین اعتدال پسند اور مسلکی جھنجٹ سے آزاد ممالک اگر اس نقطے پر متحد ہوجائیں تو شاید مجموعی منظر بدلنے کا عمل بھی شروع ہوجائے۔
اسلامی نشاۃ ثانیہ مسلمان دنیا کا پرانا خواب ہے۔ اس خواب کی تعبیر میں بہت سے بہادر اور صاحب بصیرت حکمران اور راہنما اپنی جانیں اور اقتدار گنواتے رہے۔ ایک مدت تک یہ خواب زندہ رہا مگر پھر حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ یہ خواب بھی آنکھوں میں ہی مر کر وہیں دفن ہو کر رہ گیا۔ او آئی سی جو پہلے ہی رسم دنیا نبھانے کا ایک پلیٹ فارم تھا اس معمولی سی صلاحیت سے بھی محروم ہو کر رہ گیا اور اس پلیٹ فارم کی حیثیت ایک ویران اور اجاڑ مقام کی ہو کر رہ گئی۔ پچھلے دو تین عشرے اسی حالت میں گزر گئے۔ یہ حالات تو بہت روح فرسا تھے جب یہ خواب دیکھنے والی آنکھیں تعزیر کی مستحق قرار پاچکی تھیں۔ نائن الیون نے تو مسلمان سماجوں پر ایک قیامت ڈھا دی۔ یوں لگا کہ امریکا کے گرنے والے مینار اپنی بنیادوں پر نہیں بلکہ مسلمان دنیا پر جا گرے تھے۔ اس ملبے میں مسلمان کراہتے چیختے چلاتے رہے۔ مسلمانوں کو ایک عالمی مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور دنیا کا ہر الزام اور ہر جرم ان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ مسلمان دنیا میں منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ مسلمان ہی نہیں ان کا مذہب اور ثقافت بھی بدنامی کا اشتہار بنا دی گئی۔ دنیا کے ہر قبیح فعل اور جرم کو مسلمان دنیا اور ان کے مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ مسلکی تقسیم نے مسلمان دنیا کی رگوں کا خون نچوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک حکمت کے تحت کبھی ایک ملک کو مسلک کے نام پر سبق سکھایا گیا تو کبھی اسی کے تعاون سے دوسرے ملک کی گردن مروڑی گئی۔
پاکستان بطور ریاست ماضی میں بھی مسلمانوں کے مسائل کے حل اور انہیں متحد کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد اس سفر کا اہم سنگ میل تھا۔ جب شاہ فیصل، یاسر عرفات، معمر قذافی جیسے اپنے وقت کے مقبول مسلم حکمران پاکستان کی سرزمین پر اکٹھے ہوگئے۔ اس کے بعد دنیا بدلتی چلی گئی۔ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد اور ایران میں برپا ہونے والے انقلاب اور امریکا کے ساتھ شروع ہونے والی مستقل آویزش اور مخاصمت نے مسلم دنیا کا نقشہ بدلنا شروع کیا۔ پاکستان بھی ان حالات کا شکار ہوتا چلا گیا اور یوں مسلمان دنیا میں اس کا قائدانہ کردار کم ہوتا چلا گیا۔ پاکستان اپنے مسائل میں گھرگیا کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد اور اسلامی ثقافت کی تشکیل جدید کا خواب بھول بیٹھا۔ اب وقت ایک بار پھر پاکستان کو اپنا کردار ادا اور بحال کرنے کے لیے پکار رہا ہے۔ طیب اردوان کی تجویز اور مہاتیر محمد کی تائید اور فوری عمل درآمد کی کوشش ایسی ہی ایک دستک ہے۔ پاکستان اپنے داخلی حالات اور مشکلات پر قابو پا کر آگے بڑھے تو اس کا ماضی لوٹ کر آسکتا ہے۔ آج مسلمان دنیا کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔ اسلام کی شبیہ کو عالمی سطح پر نہایت خوفناک بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اسلامو فوبیا پیدا کرکے مغربی دنیا کو اسلام کے پھیلائو اور پیغام کو سننے اور سمجھنے سے روکنے کی ہر ممکن کو شش کی جارہی ہے۔ ایسے میں مسلمان دنیا کے تین اعتدال پسند ممالک کا اسلامی ثقافت کی تدوین نو اور اسلام کو اصل سیاق وسباق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سوچ بہت مثبت اور بروقت ہے۔ ایران اس سوچ اور کوشش کا حصہ بنے تو مثلث مستطیل بن کر زیادہ بامعنی اور باوقار بن سکتی ہے اور اس کے گرد باقی مسلمان دنیا کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔