پاکستان کی مسلم اکثریت جبر میں ہے

215

عمران خان کا کمال ہے کہ جو کام نہیں آتا اس پر سب سے زیادہ بولتے ہیں۔ ایک بار پھر مذہبی معاملے میں فتویٰ دے دیا کہ جبراً مذہب تبدیل و شادی خلاف اسلام ہے۔ کچھ لوگوں نے اسلام کے نام پر سیاسی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ وہ بابا گرونانک کے جنم دن پر مکمل سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ وزیراعظم سکھوں کے لیے کرتارپور بارڈر کھولنے کے لیے بے چین ہیں جس کا فائدہ قادیانیوں کو زیادہ ہوگا۔ بہرحال وہ بھی مذہبی اقلیت ہیں جو آج کل اکثریت سے زیادہ طاقتور ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو مذہب کی جبری تبدیلی اور جبری شادی کا کوئی واقعہ یاد ہو تو بتادیتے۔ حیرت ہے انہیں بھارت میں جے رام کہنے سے انکار پر مسلمان کو نذر آتش کرنے کی خبر نہیں ملی۔ یہ واقعہ یوپی کے ضلع جندولی میں پیش آیا جہاں 15 سالہ لڑکے کو جے رام کا نعرہ نہ لگانے پر انتہا پسند ہندوئوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ نوجوان 60 فی صد جھلس گیا ہے۔ عمران خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس معاملے میں بھارتی ریاست بھی ملوث ہے، پولیس نے شرپسندوں کو بچانے کے لیے حیلے بھی شروع کردیے ہیں۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں مذہب کے لیے جبر کیا گیا ہو۔ محض گائے کا گوشت کھانے، فروخت کرنے، حتیٰ کہ گائے رکھنے پر بھی ہندو انتہا پسند مسلمانوں پر تشدد کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مذہب کے نام پر سیاسی دکانیں بھارت میں زیادہ اور بڑی بڑی ہیں ان کی ہر دکان کی سرپرستی بھارتی حکمران اور پولیس کرتے ہیں۔ یہ ہندو دکاندار چند پیسوں کی خاطر گئو ماتا کو پاکستان کی طرف دھکیل کر فروخت کردیتے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بارے میں یہ خیال کبھی نہیں رہا کہ وہ اتنے ہلکے اور بودے نکلیں گے کہ بروقت ثنا خواں تقدیس کفار بنے رہیں گے۔ ان کو فکر کھائے جارہی ہے تو مذہبی اقلیتوں کی جن کو پاکستان میں آج تک کسی نے جبراً مذہب تبدیل کرنے کے لیے نہیں کہا۔ کسی ایک واقعے میں یہ بتادیا جائے کہ کسی سے جبراً مذہب تبدیل کرایا گیا ہو۔ یہ تو بین الاقوامی این جی اوز کا ایجنڈا ہے جو پاکستان میں چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی شادی پر پریشان ہوجاتے ہیں جو بڑی عمر کی لڑکیوں کے اغوا، ان کے ساتھ زیادتی اور قتل، تیزاب پھینکنے والے وڈیروں کے حوالے سے گنگ ہوجاتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر وزیراعظم کی سطح پر ایسا شخص آکر براجمان ہوجائے جس کو اقلیت اور اکثریت کے حقوق کا پتا نہ ہو، جسے اپنے مذہب کا پتا نہ ہو اور اپنے ہی مذہب کے بارے میں فتوے دیتا ہو تو اس ملک کی تباہی کو کون روک سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان بھارت میں گئو رکشا اور ہندتوا پر تشویش کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں مارنا پیٹنا عام ہوتا جارہا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں سرکاری طور پر مسلمانوں کے بارے میں دھمکی آمیز بیانات دیے جاتے ہوں، جہاں کا وزیراعظم مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہو، اس ملک میں مسلمان اقلیت محفوظ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھارت میں مسلم اقلیتوں کے حقوق کی آواز اٹھانی چاہیے تھی۔ یہاں تو سکھ، ہندو اور اب قادیانی بھی سر چڑھاتے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کے بیان کا بروقت جواب تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے دیا ہے کہ پاکستان میں کبھی جبراً مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ سراج الحق صاحب تو وہ آدمی ہیں جنہوں نے غیر مسلموں کو غیر مسلم برادری یا اقلیتی برادری کے بجائے پاکستانی برادری قرار دینے کی قرار داد سب سے پہلے پیش کی تھی۔ لیکن وزیراعظم ہیں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مرے جارہے ہیں اور مفروضے پر۔
وزیراعظم کے مفروضے کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں پر کوئی ظلم ہورہا ہے لیکن ذرا وہ مسلم اکثریت کے حقوق کے حوالے سے تو جواب دیں کہ انہیں کیا کیا میسر ہے۔ پاکستان میں تو سب سے زیادہ مسلم اکثریت دبائو میں ہے۔ مدرسوں کی رجسٹریشن، علما کی نگرانی، ڈاڑھی والے کی پکڑ، گھٹیا میڈیا اینکرز پر ڈاڑھی والے کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ پولیس دینی جماعتوں اور مذہبی اسکالرز کے خلاف مقدمات بناتی ہے۔ پاکستانی قوم کی اکثریت قربانی کررہی ہے اور پورے ملک میں سرکاری سطح پر قربانی کو مشکل بنایا جارہا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بڑھوائی جارہی ہیں، بھتے اتنے لیے جارہے ہیں کہ ہر جانور کی قیمت میں پانچ سے 25 ہزار تک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ شہری انتظامیہ اجتماعی قربانی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ قربانی کے لیے کیمپ لگانے اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی لگائی جارہی ہے بلکہ سرکاری سطح پر دھمکایا جارہا ہے۔ حالاں کہ یہ کام تو حکومت کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، قربانی کی کھالیں محفوظ طریقے سے بیوپاریوں اور ٹینریز تک پہنچانے میں یہی ادارے تعاون کرتے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستانی چمڑے کی مصنوعات اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران قربانی اور کھالیں جمع کرنے کو مشکل بنارہے ہیں، سرکاری سطح پر قربانی کو مشکل بنانے کے لیے اس ملک میں کانگو وائرس کا شوشا چھوڑا جاتا ہے، یہاں رمضان میں نیگلیریا کی خبریں چلتی ہیں تا کہ لوگ وضو کرنے سے پرہیز کریں، رمضان کسی بھی موسم میں آجائے نیگلیریا کی خبریں اور رمضان ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ کانگو وائرس سے لوگوں کے مرنے کی خبریں عیدالاضحی کے موقع پر ہی آتی ہیں۔ جانوروں کے باڑے میں پورا سال گزارنے والے لوگ سال بھر نہیں مرتے، جب کہ وہاں سرکاری ڈاکٹر بھی سرٹیفکیٹ تقسیم نہیں کرتا۔ عمران خان صاحب اگر کوئی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلے تو اسے جبری قبول اسلام قرار دے دیا جاتا ہے۔ میڈیا علما کے خلاف طوفان کھڑا کردیتا ہے، یہاں ڈاڑھی رکھنا مسلمانوں کا حلیہ رکھنا عذاب بنایا جارہا ہے، بچوں کو مدرسوں میں پڑھانا مشکل کیا جارہا ہے اور وزیراعظم کو فکر ہے تو غیر مسلم اقلیتوں کی۔ جو سب سے زیادہ مزے میں ہیں۔ ملک کو قرضوں اور مالی مسائل میں علما اور مذہبی دکانداروں نے تو نہیں پھنسایا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اسلام کے نام پر سیاسی دکان کھول رکھی ہے۔ خان صاحب آپ نے ریاست مدینہ کا نام لے لے کر مذہب کے نام پر سب سے بڑی دکان کھول رکھی ہے، خدا کا خوف کریں ایسی باتوں سے مذہب کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ آپ کا دین دنیا سب بگڑ جائے گا۔