سچ کیا ہے

265

گزشتہ برس‘ ۲۵ جولائی کو ہونے والے عام انتخابات پر‘ ایک سال گزر جانے کے باوجود گفتگو ہورہی ہے‘ اپوزیشن جماعتوں نے ایک سال مکمل ہونے پر احتجاج‘ مظاہروں اور ریلیوں کا اعلان کیا تھا‘ پشاور‘ لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ سمیت تقریباً ہر بڑے شہر میں کہیں چھوٹی اور کہیں درمیانے درجے کی ریلیاں ہوئیں‘ ان ریلیوں میں اپوزیشن کا حصہ کم‘ حکومت کا حصہ زیادہ دکھائی دیا‘ بجٹ کے بعد ملک میں مہنگائی نے جس طرح اڑان بھری ہے ریلیوں میں زیادہ یا کم‘ عوام کی شرکت اسی کا ردعمل ہے اگر ایک سال کاجائزہ لیا جائے تو وزیر اعظم عمران خان نے جو بھی دعویٰ کیا تھا‘ تحریک انصاف اور کابینہ میں ایسے ایسے افراد شامل کیے کہ سارے دعوے اپنے ہاتھوں ہی سے مٹاڈالے‘ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کسی جگہ بھی ان افراد کی حمایت میں بولا جاسکتا ہے اور نہ لکھا جاسکتا ہے‘ ایک سال کے سفر میں تحریک انصاف نے کابینہ میں متعدد بار تبدیلی کی ہے لیکن اسے نتائج نہیں مل رہے کسی بھی حکومت میں‘ داخلہ‘ خارجہ‘ اطلاعات اور معیشت کی وزارتیں بہت اہم سمجھی جاتی ہیں بلکہ یہی وزارتیں حکومت کی آنکھ‘ کان اور زبان کا کردار ادا کرتی ہیں ان چاروں وزارتوں میں وزیر اعظم کی سلیکشن نتائج نہیں دے رہی یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر حکومت اپنے پائوں پر کھڑی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ ایک ایسی حکومت جسے پارلیمنٹ میں محض چار ووٹوں کی برتری ہو‘ اسے تو عام آدمی کی بھلائی اور اسے اعتماد دینے کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے تھا تاکہ اپوزیشن کو لوگ بھول جاتے لیکن یہ نہیں ہوسکا‘ شاید حکومت نے یہ سمجھا کہ انتخابی نتائج کی طرح حکومت چلانے کا کام بہت آسان ہے‘ پوری کابینہ وزیر اعظم عمران خان کی طلسماتی شخصیت کے بل پر عوامی حمایت کو اپنے لیے ایک مستقل انعام سمجھ رہی ہے‘ دوسروں لفظوں پر یہ خود عمران خان پر بوجھ ہیں‘ یہ صرف احتساب کے انجیکشن سے بچنے کے لیے تحریک انصاف میں ہیں‘ اگر وزیر اعظم عمران خان نے اس بوجھ کی پہچان نہ کی تو یہ خود بھی بوجھ بن جائیں گے۔ عمران خان کی کابینہ میں بیش تر وزراء‘ سابق حکومتوں میں رہے‘ ان میں بیش تر وہ چہرے ہیں جو اپنے ووٹرز سے یہ کہتے رہے‘ ہمیں تو ووٹ نہیں‘ ووٹ کو نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو کو دیا ہے انہی سے نوکریاں بھی مانگو‘ لیکن تحریک انصاف نے تو تبدیلی کا نعرہ دیا تھا‘ مگر وزراء خود ہی نعرے کو بھول بیٹھے ہیں یہ اب بھی بالکل ماضی والا رویہ ہی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا؟ یہ بحث تو چلتی رہے گی ایک کام ضرور ہوا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی لگا دی ہے‘ اسپیکر کی رولنگ عدالت میں چیلنج ہوسکتی ہے اور نہ اسے آئندہ کبھی رول آئوٹ کیا جاسکتا ہے‘ لہٰذا تحریک انصاف مستقبل میں پارلیمنٹ میں خود بھی کسی بھی وزیر اعظم کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کر سکے گی‘ تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے دعویٰ کیا تھا کہ پارلیمنٹ میں زیرو آور ہوگا اور وزیر اعظم ہفتے میں ایک بار سوالوں کے جواب دیا کریں گے‘ وہ جواب تو کیا دیتے‘ پارلیمنٹ ہی میں نہیں آتے۔ تحریک انصاف یہ بات بھول گئی کہ اقتدار میں آکر عوام سے بیگانہ ہوکر جس طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اجنبی بن گئی ہیں تحریک انصاف شاید اس سے محفوظ رہے گی‘ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہوگا‘ حکومت اور اس کے وزراء کو عام آدمی کے مسائل سمجھنا ہوں گے اور ان کا حل بھی دینا ہوگا۔ ایف بی آر کو کلی‘ اندھے اور کسی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر اختیار دے کر ملک میں کیسے معاشی سرگرمیاں بہتر بنائی جاسکتی ہیں‘ معاشی اصول یہ ہے کہ پیسے کی ریل پیل جاری رہے تو معاشی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں جس سے ہر انسان اپنی اپنی سطح پر مستفید ہوتا رہتا ہے‘ یہ نکتہ توجہ چاہتا ہے‘ اگر حکومت نے پچیس جولائی 2018 اور 25 جولائی 2019 فرق محسوس نہ کیا تو اسے آئندہ آنے والا 25 جولائی مہنگا پڑسکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ معاشی‘ خارجہ اور اپنی داخلہ پالیسی واضح کرے‘ ملک میں روزگار کیسے فراہم کرنا ہے یہ پلان پارلیمنٹ کو دے‘ حکومتی اداروں میں پائی جانے والی خرابی کیسے دور کرنی ہے‘ محض ڈنڈے کے زور پر احتساب سے کام نہیں چلے گا یہ بیک فائر کرجائے گا حکومت کو جواب تلاش کرنا چاہیے کہ ڈالر ریٹ کیوں بڑھ گیا؟ تجارتی خسارہ برآمدات کو بڑھا کر کم کیا جائے تو مثبت علامت ہوتی ہے برآمدات بڑھنے سے روزگار بڑھتا ہے لیکن کوئی نہیں سوچ رہا کہ ملک میں کاروبار بند ہورہے ہیں‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے جی ڈی پی کا سائز سکڑ نے سے چالیس لاکھ نوکریاں ختم ہوچکیں اور خدشہ ہے کہ اس کے تسلسل سے مزید 80 لاکھ لوگ بے روزگار ہوں گے اور یوں ایک کروڑ نوکریاں ملنی تو ایک طرف رہیں، ایک کروڑ بے روزگار ضرور ہوں گے۔ کابینہ اگر اس سطح پر سوچے گی کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں گھر کا کھانا ملنا چاہیے یا نہیں تو پھر حکومت خود ہی اپوزیشن کے لیے راستہ صاف کرتی چلی جائے گی۔ ذرا سوچیے کہ حافظ محمد سعید کو گرفتار کرنے، توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ بی بی کو رہا کرکے بیرون ملک پہنچانے جیسے بہت سارے اقدامات کے باوجود امریکا نے پاکستان کو ایک نئی لسٹ تھما دی ہے یوں نیا پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔