ٹیکس خزانے میں اضافہ کردیں گے؟

180

حکومت کی آمدنی میں اضافے کے لیے ٹیکسوں میں اضافے کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے لیکن کیا ٹیکس ہی وہ واحد ذریعہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کے خزانے میں اضافہ کیا جاسکتا ہے؟، اس امر پر غور کرنے کے لیے کبھی کوئی کمیٹی بنائی جاتی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی کمیشن بٹھایا جاتا۔ بظاہر ٹیکسوں میں اضافہ یا نئے ٹیکسوں کا لگایا جانا حکومت کی آمدنی اور ملکی خزانے میں واضح اضافہ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اگر اس کا دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ طریقہ کار خزانے میں اضافے کے بجائے کمی کا سبب بنتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ جہاں یہ ٹیکس ایک جانب عوام کی بے چینی میں اضافہ کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ملک کی معیشت کو زوال کی جانب دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سامنے کی بات ہے، جب بھی عوام پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا یا نئے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے تو ہر فرد کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ قوت خرید کم ہونے کے نتیجے میں ہر فرد اپنی کسی نہ کسی کم ضروری مد میں کٹوتی کر کے ایسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کی زندگی کے لیے زیادہ ضروری ہو۔ مثلاً تن ڈھانپنے کے لیے نئے کپڑوں یا پہنے کے لیے نئے جوتوں کو مؤخر کرکے وہ پیٹ کی دوزخ کو بھرنے جیسے کام کو اولیت دے گا۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے اور پھر افراد کی آمد و خرچ کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ خرچ کی جانے والی رقم جس پر حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے وہ ٹیکسوں میں اضافوں اور نئے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد سے کہیں کم ہوگی۔ جب خرچ کی جانے والی رقم کم ہوگی یا اسی رقم کے برابر ہوگی جو اس سے قبل وصول ہوئی تھی تو پھر ملکی خزانے میں اضافہ کیسے ممکن ہوسکے گا؟۔
جس طرح دواؤں کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اور کچھ دواؤں کے منفی اثرات تو فوائد سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اسی طرح ٹیکسوں میں اضافہ یا نئے نئے ٹیکس بھی ملک کی معیشت پر نہایت منفی اثرات ڈالنے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ جیسا کہ شروع میں نشاندہی کی جاچکی ہے کہ ہر فرد اپنی محدود آمدنی ہی میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے پر مجبور ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان اخراجات کو کم یا مؤخر کرے جن کو کچھ عرصے کے لیے ٹالا جاسکتا ہو تو ملک بھر کی مارکیٹ میں وہ بہت ساری اشیا کی طلب کم ہو جائے گی جس کا اثر ان کی پیداوار پر پڑے گا لہٰذا ایسی صنعتوں کے بند ہوجانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کارخانہ داروں کو آمدنی میں کمی کی وجہ سے ملازمین کی یا تو تنخواہوں میں کمی کرنا پڑے گی یا پھر ملامتوں میں کٹوتی عمل میں لانا پڑے گی۔ تنخواہوں میں کمی یا ملازمتوں میں کٹوتیاں کسی بھی صورت میں ملک کی معیشت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہو سکتی۔ ٹیکسوں میں اضافے یا نئے نئے ٹیکسوں سے کارخانوں میں تیار ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب کارخانوں میں تیار کی جانے والی اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی لیکن افراد کی قوت خرید وہیں کی وہیں رہے گے تو ان کی طلب میں لازماً کمی واقع ہوگی جس کی وجہ سے ان کی سیل میں کمی ہو جائے گی جو ملوں اور کارخانوں پر منفی اثرات کا سبب بنے گی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملوں اور کارخانوں میں تیار ہونے والی اشیا اگر زیادہ لاگت میں تیار ہوںگی تو بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ بہت مشکل ہو جائے گا اس لیے کہ ہمارے ملک کے مقابلے میں بہت سارے ممالک وہی اشیا زیادہ وافر اور کم قیمت میں فراہم کرنے کے لیے تیار ہوںگے اور یہ بات ہماری برآمدات کے لیے سم قاتل ثابت ہوگی۔ کارخانے بند ہونا شروع ہوجائیں گے یا وہ اپنی پیداوار کم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جس سے بے روزگاری بڑھ جائے گی اور ملک افراط و تفریط کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ملک کے خزانے کو کس طرح بھرا جائے۔
کسی بھی گھر کی آمدنی میں اضافہ دو ہی صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ گھر میں موجود وہ افراد جو برسر روزگار نہیں ہوں ان میں کچھ افراد کو روزگار میسر آجائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ پہلے سے برسر روزگار افراد کی آمدنی جس کو تنخواہ بھی کہا جاتا ہے اس میں اضافہ ہو جائے۔ ملازمتوں میں اضافہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملازمتوں کے مواقع بڑھائے جائیں اور آمدنی یا تنخواہوں میں اضافہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب پہلے سے موجود ملوں اور کارخانوں کی پیداوار بڑھے اور اس میں تیار ہونے والی اشیا کی طلب میں ملک اور بیرون ملک اضافہ ہو۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا حکومت کم از کم ان دو زاویہ ہائے نگاہ کے مطابق کام کر رہی ہے۔ کیا ملک میں نئے نئے صنعتی زون قائم ہو رہے ہیں۔ کیا ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ کیا صنعتوں کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے اشیا کی پیداواری لاگت بڑھنے کے بجائے کم ہو اور وہ سستی ہوملک میں اور ملک سے باہر اپنی مارکیٹ بنانے اور بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں۔ کیا ملازمتوں کی موقعوں میں اضافے کیے جارہے ہیں جس سے ایک جانب لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو اور دوسری جانب اشیا کی طلب میں اضافہ ہوسکے۔ اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو پورے ملک میں ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ قرضے تو حاصل کیے جارہے ہیں لیکن ان قرضوں سے کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا تیار نہیں کیا جارہا جو ملازمتوں میں اضافہ کرتا نظر آرہا ہو۔ اس کے برعکس بہت سارے ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جو لوگوں کو بے گھر کرنے اور ان کے کاروبار کی تباہی و بربادی کا سبب ضرور بنے ہیں۔ ہستی بستی بستیاں اجاڑی گئی ہیں اور کئی کئی دہائیوں سے قائم بازار تجاوزات کا نام لیکر مسمار کردیے گئے ہیں۔ اوپر سے ٹیکسوں کی مد میں ظالمانہ اقدامات، تیل، گیس اور بجلی کی ریٹ میں اضافے جیسے احکامات نے بہت سارے کارخانوں میں تالے لٹکوا دیے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں عوام بے روزگارہو کر رہ گئے ہیں۔
قرض لینا کوئی گناہ یا جرم نہیں لیکن قرض لیکر کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ اس سے آمدنی کا کوئی ذریعہ پیدا ہوسکے، گناہ عظیم بھی ہے اور بہت سنگین جرم بھی۔ اگر قرض صرف اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہی لیا جائے اور اسے کسی تعمیری مصرف میں نہ لایا جائے تو پھر قرض کو اتارا کیسے جائے گا؟۔ اس پر لگنے والی سودی رقم کا کیا بنے گا اور نہ اتارنے کی صورت میں ملک کے کن کن اثاثوں کا سودا کرنا پڑے گا؟، یہ ہیں وہ سوالات جو ہر حکومت کو قرض لینے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ لینے چاہئیں۔ پاکستان ہر دور میں قرض لیتا رہا ہے لیکن یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ ان قرضوں کو کافی حد تک مثبت مدآت میں بھی خرچ کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے برعکس موجودہ حکومت کا ایک سال گزرجانے کے باوجود گلوں شکوں کے علاوہ کسی بھی قسم کی کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہر حکومتی دوروں کی تعریفوں میں تو زمین و آسمان ایک کیے جارہے ہیں لیکن مہنگائی، بجلی، گیس، پٹرول اور ٹیکسوں میں مسلسل اضافے پر اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔
بقیہ صفحہ 7 کالم1 پر
حبیب الرحمن
امریکا کے دورے کو تو (نعوذ باللہ) واقعہ معراج بنا کر رکھ دیا گیا ہے لیکن وہاں سے اب تک جو کچھ بھی حاصل ہوا ہے وہ عسکری قوت میں اضافے کے سوا اور کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صرف ’’ہینڈسم‘‘ ہونے سے یا ’’باتوں‘‘ سے کسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرا کرتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ شکل و صورت اور باتوں کو کوڑا کرکٹ میں ڈال کر وہ باتیں اور کام شروع کیے جائیں جس سے عوام کی بھوک مٹ سکے ورنہ بعید نہیں کہ یہ بھوکے اور خالی پیٹ موجودہ حکومت ہی کو ہڑپ کرجائیں اور ڈکار تک نہ لیں۔ اس سے پہلے کہ بھوک بغاوت کی اس انتہا کو پہنچے، حکومت باقی ماندہ برسوں میں اپنی اچھی منصوبہ سازی سے کام لیکر کوئی ایسا معجزہ دکھا جائے کہ عوام کا غصہ پیار و محبت میں بدل جائے ورنہ مستقبل تو کوئی اور ہی کہانی سناتا نظر آرہا ہے۔