’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جماعت اسلامی نے سینیٹ میں ایسا ہی کیا

223

سینیٹ ملک کا اہم ترین ادارہ، جس کا چیئرمین قائم مقام صدر بنتا ہے۔ جہاں ملک کے چاروں صوبوں کی کی نمائندگی ہوتی ہے۔ جہاں کے ارکان ٹینکو کریٹ، اقلیت اور خواتین پر مشتمل ہوتے ہیں سینیٹ، پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔ یہ دو ایوانی مقننہ کا اعلیٰ حصہ ہے۔ اس کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشستوں کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں جبکہ ارکان کی مدت 6 سال ہوتی ہے۔ اس موجودہ ایوان بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی ہیں جو 12 مارچ 2018 کو منتخب ہوکر اس عہدے پر آئے جبکہ اس کے کل اراکین کی تعداد 104 ہے۔ ملک میں جمہوریت ہو یا نہ ہو ایوان بالا یعنی سینیٹ برقرار رہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کی اہمیت دیگر ایوانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کا ہر رکن ہر لحاظ سے بھاری ہوتا۔ چاہیے وہ آزاد امیدار کی حیثیت ہی سے اس ایوان میں منتخب ہوکر آئے۔ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی بلوچستان سے تو تعلق رکھتے ہیں مگر ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے، باوجود اس کے وہ پورے ایوان میں آج بھی اکثریت کی حمایت رکھتے ہیں ’’کل‘‘ یعنی گزشتہ سال مارچ میں انہیں ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مشترکہ طور پر ووٹ دے کر منتخب کرایا تھا۔ کل بھی یہ بات واضح نہیں تھی کہ صادق سنجرانی کس کے ’’آدمی‘‘ ہیں۔ لیکن اب جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز پر مشتمل ملک کی حزب اختلاف یکم اگست کو 64 ووٹ ظاہر کرنے کے باوجود خفیہ رائے شماری سے 14 ووٹ کھو کر عدم اعتماد کی پیش کی گئی قرارداد میں ناکام ہوچکی ہے، یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ ایسا کیسے ہوگیا۔ سینیٹرز کی اکثریت رکھنے والی جماعتیں بھرے ایوان میں سب کے سامنے شکست کھا گئیں۔ اس طرح چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو ’’جمہوری عمل‘‘ کی ناکامی قرار دیا جارہا ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک ناکام ہونے
سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جمہوری دور میں ’’چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کے جمہوری عمل کے دوران‘‘ عددی اکثریت کو پرسرار طور پر شکست ہوگئی۔ اس شکست کو ملک کی حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے تسلیم نہ کرنا ان کے اندر موجود کمزوری کا اعتراف ہے۔ اپوزیشن کی بے بسی یہ ہے کہ وہ 9 ووٹوں کو حکومت کے حق میں ڈالے جانے اور 5 کے ضائع ہونے کے باوجود اسے اپنی شکست تسلیم کرنے سے ’’شرما رہی‘‘ ہے۔ اس شرم سے ایک غیرت مند سینیٹر پیپلز پارٹی کے مصطفی نواز نے اپنی سینیٹ کی سیٹ سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔ لیکن چیئرمین سینیٹ بننے کے خواہش مند اور اس کے لیے نامزد کیے گئے شکست خوردہ سینیٹر حاصل بزنجو کا میڈیا کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’خفیہ رائے شماری کے دوران جو 14 لوگوں نے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کو ووٹ دیا وہ کون ہیں ؟حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ’’وہ جنرل فیض کے لوگ تھے، آپ جانتے ہیں ان کو‘‘۔
یاد رہے کہ یکم اگست کو ملکی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ایوان بالا میں رائے شماری ہوئی اور ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ پریزائڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹنگ پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’قرارداد کے حق میں 50 ووٹ ڈالے گئے۔ جبکہ قرارداد کی منظوری کے لیے مطلوبہ 53 ووٹ درکار تھے جو نہ ملنے کی وجہ سے یہ قرارداد مسترد کی جاتی ہے‘‘۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے اور 5 ووٹ مسترد ہوئے۔
سینیٹ کے چیئرمین کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کی گئی خفیہ رائے شماری سے اپوزیشن کو اپنی ناکامی برداشت نہیں ہو پارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ناکامی پر ملک کی دو بڑی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن ’’تاریخی صدمے‘‘ سے دوچار ہوگئی ہے۔ اسے اس قرار داد کی ناکامی کی کوئی امید نہیں تھی۔ یہ بات میرے لیے بھی باعث حیرت ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اس قدر منجھے ہوئے رہنمائوں کو یہ خوش فہمی کیوں تھی کہ ان کی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے گی۔ کم ازکم پیپلز پارٹی کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ بلوچستان کی جس آزاد سیاسی شخصیت کو انہوں نے خود ایک سال پہلے منتخب کرایا ہے وہ خود کیوں کر اس کو ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں؟ پیپلز پارٹی اور ان کے سینیٹرز کو اس قرار داد کی کامیابی سے قبل کم ازکم اپنے اس فیصلے کو تو غلط تسلیم کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے مارچ 2018 میں صادق سنجرانی کو چیئرمین بنانے کے لیے کیا تھا۔ اگر وہ فیصلہ کسی مجبوری کے تحت تھا تو انہیں قوم کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ مجبوری کیا تھی؟ سیاست کا ہر عمل قوم کو اعتماد میں لیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا، کیا اتنی معمولی بات بھی تین بار ملک پر حکمرانی کرنے والی جماعتوںکو نہیں معلوم۔ اگر لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر خفیہ فیصلے کیے جائیں تو اس کے نتائج اسی طرح پشیمانی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جن 14 سینیٹرز نے عین وقت پر ووٹ صادق سنجرانی کی مخالفت میں نہ دینے کا فیصلہ کیا یقینا ان کی جماعتوں نے انہیں اس تمام عمل کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی بازگشت کے مطابق جن سینیٹرز نے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا ان میں سے دس کا تعلق مسلم لیگ نواز، تین کا پیپلز پارٹی اور ایک کا جے یو آئی ایف سے ہے۔ واقف حال لوگوں کو یقین ہے کہ صادق سنجرانی یا حکومت نے کسی سینیٹر کو خریدا نہیں ہوگا بلکہ مذکورہ سینیٹرز نے اپنی سیاسی ’’مجبوریوں‘‘ کی وجہ سے ’’آزادانہ فیصلہ‘‘ کرتے ہوئے صادق سنجرانی کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا۔ اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو مجھے یقین ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت آئندہ چند روز میں مزید مستحکم ہوجائے گی۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاول اور شہباز شریف حکومت کے خلاف کیا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ناکامی کے فوری بعد بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے عوام یہ نہیں مانتے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سینیٹ پر حملہ ہے ہم اس کا حساب لیں گے‘‘۔ ان کا پشیمانی کی حالت میں یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ہم پتا لگائیں گے کہ پارٹی میں کون تھا جو دباؤ میں آیا جس نے اپنا ضمیر بیچا‘‘۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے رہنما شہباز شریف نے کہا کہ ’’ہم قوم کو بتائیں گے کہ وہ 14 لوگ کون تھے جنہوں نے ضمیر فروشی کرکے جمہوریت کو نقصان پہنچایا‘‘۔
بہرحال سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے سے حکومتی جماعت تحریک انصاف کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں جبکہ عام اور غیر سیاسی لوگوں کی اکثریت یہ نتیجہ اخذ کررہی ہے کہ حکومت مستحکم ہے اسے جمہوری طریقے ناکام بنانا مشکل ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 9 جولائی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے جاوید عباسی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایوان میں لائی گئی تھی۔ یہ بھی واضح رہے کہ جماعت اسلامی کی طرف سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف ووٹنگ کے عمل پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس فیصلے کے باعث جماعت اسلامی کے 2 سینیٹرز رائے شماری کے وقت ایوان میں نہیں تھے۔ عوامی حلقے سینیٹ کے منتخب چیئرمین کو ہٹانے کے عمل میں جماعت اسلامی کے کردار کی تعریف کررہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے غیر جانبدار رہ کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے سلوگن کی تائید کی۔ جبکہ نواز شریف کی اپنی پارٹی نے اپنے اس سلوگن کے خلاف عمل کیا۔