کشمیر جنیوا کمیشن اور پاکستان

216

 

 

پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان سے ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا کہ پاکستان کا آئین و قانون کیا ہے، جس پر بنا کسی توقف کے انہوں نے فرمایا کہ آئین و قانون کیا ہوتا ہے، آئین و قانون وہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ وہ وقت اور آج کا دن، پاکستان میں کوئی آئین بنایا گیا یا نہیں بنایا گیا، قانون موجود ہوا یا قانون موجود نہیں ہوا، آئین اور قانون وہی چلا اور مسلسل چل رہا جو ’’طاقت‘‘ کہہ دے۔
کیا جب ضیاالحق پاکستان کے تختہ اقتدار پر بیٹھے تو پاکستان میں کوئی آئین و قانون موجود نہیں تھا؟۔ عدالتیں کام نہیں کر رہی تھیں، 1973 کے آئین نے کیا ہر ادارے کے اختیارات طے نہیں کر دیے تھے۔ کیا ہر محکمے کا دائرہ عمل کا تعین نہیں کر دیاگیا تھا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے ملک کے حالات نے ثابت کر دیا تھا کہ اس وقت کی حکومت ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی تھی اور ریاست کسی بھی بڑے صدمے سے دوچار ہو سکتی تھی اس لیے ’’طاقت‘‘ انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے پر مجبور ہو گئی تھی تو یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئین ایسا کرنے اجازت دیتا تھا اور دوم یہ کہ کیا ایسی صورت حال میں آئین نے کسی اور آپشن کی گنجائش نہیں رکھی تھی؟۔ کیا ایسی صورت حال میں مڈٹرم الیکشن کا آپشن موجود نہیں تھا؟۔ پاکستان کی عدلیہ سے بھی یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہر غیر آئینی ہی نہیں کسی حد تک آئین و قانون سے غداری کرکے قائم ہونے والی حکومتوں کے غیر آئینی، غیر جمہوری اور سراسر غدارانہ اقدامات کو استثنیٰ کیوں دیتی رہیں اور وہ خود بھی عملاً پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب کیوں ہوتی رہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم نے اپنی زندگی کو مزید پر سکون اور امن و امان میں رکھنے کے لیے کچھ قوانین بنائے ہیں، ان قوانین کو جنیوا کنونشن سے پکارا جاتا ہے۔ بھارت کشمیر میں جو بھی کاروائیاں کررہا ہے اور ظلم و جبر کا جو بازار گرم کیے ہوئے ہے وہ اسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیاں ہیں جنہیں جنیوا کنونشن کا نام دیا گیا ہے۔ پیلٹ گھنوں کا استعمال، کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا، خطہ کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنا اور اب آبادیوں پر کلسٹر بموں کا استعمال، یہ ساری کارروائیاں بین اقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں ہی ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ ’’طاقت‘‘ جو جی چاہے کر سکتی ہے اور ہر قسم کی طاقت کا جواب اس سی بڑی طاقت کے استعمال کے سوا کوئی اور حل ہوا ہی نہیں کرتا۔ کیا صرف بھارت ایسا کر رہا ہے؟، کیا دنیا کا ہر طاقتور ملک اپنے سے کمزور ممالک، اپنے اندر بسنے والی اقلیتوں اور اپنے مفادات کی خاطر ہر لاغر ریاستوں میں جنیوا کنونشن کی پابندیاں کرتا ہے؟۔ یہ ساری باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اصل آئین و قانون، آئین و قانون نہیں ہوا کرتا بلکہ طاقت ہی وہ آئین و قانون ہے جس پر ہر اس فرد و بشر، علاقوں، ملکوں اور ریاستوں کو سر جھکانا ضروری ہوتا ہے اور جو سر بھی کشیدہ ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے قلم کردیا جاتا ہے۔
بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہمارے وزیر خارجہ کا ایک رد عمل سامنے آیا ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ ’’بھارت خطرناک کھیل کھیلنے سے باز رہے، کلسٹر بم کا استعمال جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارتی جارحیت کا نوٹس لے، مقبوضہ کشمیر میں مقامی آبادی کا تناسب بگاڑنے کی مذموم کوششوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے کلسٹر ایمونیشن کے استعمال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے سفیروں کو بریفنگ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کوئی ایسا واقعہ چاہتا ہے جس سے پاکستان کی جانب انگشت نمائی کر کے عالمی رائے کو گمراہ کر سکے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ’’تمام تر ظلم اور جبر کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھارت کے ہاتھ سے نکل چکی ہے، تمام تر بھارتی ہتھکنڈوں کے باوجود مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف سنا جارہا ہے‘‘۔
اگر دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیان کا ایک ایک لفظ سچائی میں ڈوبا ہوا ہے اور اگر دنیا نے پاکستان کے موقف کو نہ سمجھا تو خطے کے حالات بہت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں لیکن اس بات کا کیا کسی کے پاس کوئی جواب ہے کہ ’’طاقت‘‘ ایک ایسا آئین و قانون ہے جس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ (نعوذباللہ) حکم الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور جس کو نہ ماننے کی سزا گردن زدنی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا کرتی۔ شاہ محمود قریشی کا یہ فرمانا کہ بھارت کی ظلم و زیادتی کے خلاف جو بھی آواز اٹھائی جارہی ہے دنیا اب اس کو توجہ سے سن رہی ہے، درست ہی سہی لیکن جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا ایک کان سے سن ضرور رہی ہے مگر دوسرے کان سے نکال کر پھینک بھی رہی ہے۔ جس فریاد کو سن کر دنیا کا کسی بھی قسم کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آئے کیا اس کو ’’سننا‘‘ مان لیا جائے؟۔
بات نہایت سیدھی اور سادہ ہے اور وہ یہی ہے کہ ہر وہ ملک جو دنیا میں اپنی آواز کو مؤثر بنانا چاہتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ’’طاقت‘‘ کی پوجاپاٹ سے نکل کر آئین و قانون کا نہ صرف پابند بنے بلکہ جو بھی فرد، محکمہ اور ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کرے وہاں کی عدلیہ بلا خوف و خطر اس کے خلاف حکم جاری کرے اور انتظامیہ اس پر سختی سے عمل کرائے۔ یہ سب ہوگا تو ملک ترقی کرے گا، ادارے مضبوط ہوںگے، ریاست کا ہر فرد مطمئن اور خوشحال ہوگا اور دنیا ہماری شکایات کو صرف سنے گی ہی نہیں بلکہ ہمارے قدم سے قدم ملاکر چلے گی ورنہ پوری دنیا نقار خانہ بنی رہی گی جس میں توتی کی آواز محض توتی کی آواز کے طور پر ہی گونجتی رہے گی۔