کشمیر: نریندر مودی کی عیارانہ چال

358

 

 

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑی عیاری اور گہری منصوبہ بندی کے ذریعے سرجیکل اسٹرائیک کی مانند مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے تین علاقوں میں تقسیم کر کے ہندوستان میں مکمل طور پر ضم کر لیا ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں 1954 میں وزیر اعظم نہرو اور جموں و کشمیر کے اْس زمانہ کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ کے درمیان ایک سمجھوتے کے تحت ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی دستور ساز اسمبلی قائم کی گئی تھی اور کشمیر کا اپنا الگ آئین تھا جس کی رو سے ہندوستان کی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین اْس وقت تک کشمیر میں نافذ نہیں ہو سکتے تھے جب تک کشمیر کی ریاستی اسمبلی ان کی منظور ی نہ دے دے۔ 1954 میں آرٹیکل 370 صدارتی حکم نامے کے تحت نافذ کیا گیا تھا، اسی کے ساتھ صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 اے آئین میں شامل کیا گیا تھا جس کے تحت جموں و کشمیر کے قوانین کو تحفظ دیا گیا تھا۔ اس کی رو سے کشمیر کے باہر رہنے والے کسی شخص کو کشمیر میں جائداد خریدنے کی ممانعت تھی اور کشمیر کے باہر کے کسی شہری سے کشمیری خاتون سے شادی ممنوع قرار دی گئی تھی تاکہ کشمیر کے باہر کے لوگ شادیوں کے راستے کشمیر میں آباد نہ ہو سکیں اور آبادی کا تناسب درہم برہم نہ ہو۔ اس پابندی کی بنا پر کشمیری خاتون، کشمیر کے باہر کسی شہری سے شادی کی صورت میں جائداد کے حق سے محروم ہو جاتی تھی۔
ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کا اختیار کشمیر کی دستور ساز اسمبلی اور کشمیر کی کابینہ کی سفارش پر صدر ریاست کو تھا۔ لیکن اب نہ تو صدر ریاست ہیں اور نہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی موجود ہے کیوںکہ نریندر مودی کی حکومت نے جموں و کشمیر کو مرکزی حکومت کے زیر انتظام لانے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاستی اسمبلی نومبر 2018 میں توڑ دی تھی اور ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔ لہٰذا مودی حکومت نے بڑی آسانی سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت یک لخت ختم کردی ہے اسی کے ساتھ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون پیش کیا ہے جس کے تحت جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا اسی بل کے تحت جموں و کشمیر، دلی کی طرح، مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا اور لداخ کو مرکزی حکومت کے تحت علاقہ قرار دیا جائے گا۔ لداخ میں فی الحال ریاستی اسمبلی قائم نہیں کی جائے گی البتہ اگر ضروری سمجھا گیا تو جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دے کر اس کی اسمبلی قائم کی جاسکے گی۔
نریندر مودی کی حکومت ایک عرصہ سے جموں و کشمیر میں اس سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کر رہی تھی، گزشتہ نومبر میں جموں کشمیر کی اسمبلی توڑ کر اور صدارتی راج نافذ کرکے وہ اس انتظار میں تھی کہ عام انتخابات میں اسے لوک سبھا اور راجیا سبھا دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہو جائے تو وہ یہ سرجیکل اسڑائیک کر سکے، اور ایسا ہی ہوا۔ کشمیر ی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے مودی حکومت نے یہ نعرہ لگایا ہے کہ ان اقدامات سے جموں و کشمیر اور لداخ میں تیزی سے ترقی ہوگی۔ اسی کے ساتھ کشمیری خواتین سے ہمدردی کے اظہار کے لیے یہ دلیل پیش کی جارہی ہے کہ کشمیر ی خواتین سے جو نا انصافی برتی جارہی تھی وہ اب ختم ہو جائے گی۔ اس وقت جب کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی ہے جسے ہندوستان نے یکسر مسترد کر دیا ہے، تاہم مودی حکومت کا یہ اقدام، خاصی اہمیت کا حامل ہے، ممکن ہے نریندر مودی صدر ٹرمپ سے کہ کہنا چاہتے ہوں کہ آپ پاکستان کے حکمرانوں کا یہ کہہ کر دل خوش کرتے رہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کرنے کے خواہاں ہیں اور ہم اس دوران کشمیر کو اپنے دام میں اور جکڑتے رہیں۔
جموں و کشمیر کو مکمل طور پر ہندوستان میں ضم کرنے کے اقدام سے پہلے مودی حکمت نے بارہ ہزار سے زیادہ مزید فوج وادی میں تعینات کی ہے اور حریت کے رہنماوں سمیت سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔ نریندر مودی یہ جانتے ہوئے کہ طاقت کے بل پر آزادی کے جذبہ کو کچلا نہیں جا سکتا کوشش ان کی یہی ہے کہ کشمیر اور کشمیریوں کو ہندوستانی فوج کی طاقت کے بل پر روند دیا جائے۔ اس وقت ہندو قوم پرستی، ہندوتوا کی چڑھتی ہوئی لہر کی وجہ سے نریندر مودی اقتدار کے نشے میں مست نظر آتے ہیں لیکن ان کو اس کا علم نہیں کہ جواہر لعل نہرو، پندرہ سال تک کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو روندنے اور اس مسئلہ کے حل کی کوششوں سے انکار کے بعد آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اور وہ کشمیر کے مسئلہ کا بقول ان کے ’’آئینی انتظام‘‘ کی بنیاد پر حل کے خواہاں تھے۔ میں نے نہرو کو لوک سبھا میں ’’آئینی انتظام‘‘ کی اصطلاع استعمال کرتے سنا تھا اور اس کے بعد بمبئی میں کانگریس کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں بھی انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اب ہمیں اس دلدل میں دھنسے بہت عرصہ گزر گیا ہے ہمیں اس دلدل سے نکلنا چاہیے۔ نہرو نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے مذاکرات کے لیے اپنے دیرینہ ساتھی شیخ عبد اللہ کو جیل سے رہا کیا تھا۔ نہرو کو اس اقدام پر کانگریس کے رہنمائوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن سخت علالت کے باوجود نہرو جو اجلاس میں پورے وقت کاوچ پر لیٹے رہے تھے، طیش میں اٹھے اور مائیکرو فون پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور شیخ عبداللہ کی رہائی کے فیصلہ کا پْر زور دفاع کیا اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی مقصد کے لیے میں نے شیخ عبداللہ کو صدر ایوب سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد بھیجا ہے۔ بمبئی کے اس اجلاس کے ایک ہفتہ بعد ہی نہرو انتقال کر گئے جب کہ شیخ عبد اللہ ابھی اسلام آباد ہی میں تھے۔ کاش کہ آج کوئی نریندر مودی کو سمجھائے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کی اس دلدل سے نکل آئیں جس سے نکلنے کے لیے نہرو بے تاب تھے۔