’’آج کارگل ہمارا ہوتا تو پورا کشمیر پاکستان ہوتا‘‘

317

’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ہم گزشتہ 72 سال سے یہ نعرہ لگا رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لیے تو شاید ہی کوئی قابل ذکر کوشش کی ہو، ہاں البتہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی حوصلہ افزائی کے لیے درپردہ یا خطے کے امن کی آڑ میں بہت کچھ کیا گیا۔ یہ بات تو اب کوئی خفیہ بھی نہیں رہی کہ کارگل کے محاذ پر 1999 میں فوج کی فتح کو نواز شریف حکومت کے غلط فیصلے نے شکست میں تبدیل کرادیا تھا۔ اگر آج کارگل ہمارے پاس ہوتا تو شاید کشمیر بھی پاکستان میں ہوتا۔ ہمارے حکمران آج وہ نہیں ہیں جو 1999 میں تھے مگر شاید وہ بھی نہیں ہیں جو ہونا چاہیے تھے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر کو نیا فلسطین بنانے میں لگ چکا مگر ہماری حکومت ابھی تک فیصلے کررہی ہے۔ دشمن ملک کے لوگ اسلام آباد میں پاکستان کے بلوچستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے پوسٹر اور بینر لگا گئے، وفاق حکومت کو اس کا علم تک نہ ہوسکا۔ ہے نا حیرت اور افسوس کی بات۔ چلیے اس بات کو نظر انداز کرکے وزیراعظم عمران خان کی بات کرتے ہیں۔ موصوف نے منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو ہم جواب دیں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے‘‘۔ یہ بات وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوبارہ آغاز پر کہی۔ اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد پیش
کی۔ جو پہلے اس لیے ہنگامہ آرائی کی نظر ہوگیا تھاکہ اس اجلاس میں پیش کی گئی قرارداد میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دفعہ 370 ختم کرنے کا ذکر تک نہ تھا۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن کے اراکین نے احتجاج کیا، جس کے باعث اجلاس 20 منٹ کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔ تاہم یہ اجلاس 2 گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد شروع ہوا جس میں اعظم سواتی نے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کا معاملہ شامل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کی۔ اب پوری پاکستانی قوم کو وزیراعظم کے بیانات سے زیادہ ان کی جانب سے بھارت کے ناقابل منظور فیصلے پر آئندہ کیے جانے والے ممکنہ اقدامات سے دلچسپی ہے۔ قوم یہ بات مشکل ہی سے برداشت کر رہی ہے کہ بھارت قرار داد کی منظوری کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو ایک ریاست کے بجائے وفاق کا حصہ بناچکا ہے۔ اس فیصلے پر اب تک پاکستان کو مقبوضہ کشمیر اور وہاں کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے عملی طور پر کچھ کر دکھانا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا اور نہ ہی کیا گیا۔
یاد رہے کہ 5 اپریل کو راجیا سبھا (ایوان بالا) سے مذکورہ بل اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود پاس ہو گیا تھا۔ خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر) آرڈر 2019 کا خصوصی آرٹیکل نافذ کردیا گیا ہے، جس کے تحت اب بھارتی حکومت مقبوضہ وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ بھی کرسکے گی۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے بھارتی وزیر داخلہ نے اسے تاریخی قانون سازی قرار دیا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا براہ راست کنٹرول ہوگا۔ بھارت نے تنازع قرار دیے گئے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک کے قوانین کے ذریعے اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرکے نہ صرف اقوام متحدہ کے فیصلے کی مخالفت کی ہے بلکہ یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ متنازع کشمیر ختم کرانے کے لیے کسی چمپئن ملک اور اس کے صدر کی ثالثی بھی قبول نہیں کی جائے گی بلکہ یہ مسئلہ ان کا اپنا تھا جسے انہوں نے خود حل کرلیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا بھارت کے اس فیصلے پر کیا ردعمل دے گا؟۔
اگرچہ بھارت کی اس ’’زبردستی‘‘ پر دنیا بھر میں ہلچل مچ چکی ہے جبکہ چین نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کی حرکت چین کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہے۔ چین نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ایسے اقدامات سے گریز کرے جو سرحدی مسائل مزید پیچیدہ کرنے کا سبب بنیں۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متعلقہ مسئلے کو بات چیت سے پر امن طور پر حل کریں۔
بھارت کا یہ فیصلہ اگرچہ متنازع ہی کہلائے گا۔ لیکن اگر ہم اس اقدام پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے یہ متنازع فیصلہ کرکے مسلمانوں سے براہ راست ٹکرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک تیر سے دو شکار کے مثل کے طور پر نہ صرف اپنی زمین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرگیا بلکہ پاکستان کے 22 کروڑ مسلمانوں کو بھی چیلینج کر بیٹھا جو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی جدوجہد کررہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ان کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بیان کے بعد کیوں ہوگیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہلے پیش کی جانے والی قرار داد میں مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرنے کا اہم ترین ذکر کیوں نہیں تھا؟ کیا ہماری موجودہ میں بھی سابقہ حکومت کی طرح آستین کے سانپ موجود ہیں؟؟۔