شاید امپائر کی انگلی اُٹھ گئی ہے

366

جب سے تحریک انصاف کی حکومت مسلط ہوئی ہے ہمیں بارہا یہ خیال آیا ہے کہ ہماری زبان کالی ہے اور اس کالک سے نجات پانے کے لیے ہمیں پان کھانا چاہیے مگر یہ سوچ کر اس ادارے سے باز آجاتے ہیں کہ زیادہ چونا لگنے سے زبان کٹ گئی تو وطن عزیز کی کوئی عدالت ہماری شنوائی نہیں کرے گی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب شیخ رشید فرمایا کرتے تھے کہ ان کی حکومت آئی تو پٹرول 46 روپے کا اور ڈالر 90 روپے کا ہوجائے گا تو ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ شیخ صاحب آپ کی حکومت آئی تو پٹرول 146 روپے کا اور ڈالر 190 روپے کا ہوجائے گا کیوں کہ اس کے بعد آپ کو حکمرانی کا موقع نہیں ملے گا۔ حالات اور واقعات بتارہے ہیں کہ ہمارے خدشات درست ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہاں یاد آیا جب عمران خان نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کیا کرتے تو ہم نے کہا تھا کہ بھٹو مرحوم نے مشرقی پاکستان کی قیمت پر نیا پاکستان بنایا تھا، سو، اس ضمن میں یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے کی کیا قیمت ادا کریں گے؟۔ ان کے دورہ امریکا سے لگتا ہے کہ وہ جس امپائر کی انگلی کے منتظر تھے وہ اُٹھ چکی ہے۔
ان دنوں ٹی وی اینکر اور سیاسی دانش ور وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا پر جی کھول کر بول رہے ہیں، شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستانی دانش ور بغلیں بجارہے ہیں اور بھارتی دانش مند رانیں پیٹنے کا ڈراما کررہے ہیں، مگر کوئی دانش مند یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بھائی نے وزیراعظم عمران خان سے قبل امریکا کے صدر مسٹر ٹرمپ سے کیوں ملاقات کی اور اس ملاقات کا اصل مقصد کیا ہے؟ اور پاکستان میں قادیانیوں پر ہونے والے نام نہاد ظلم و ستم کی داستان کیوں سنائی گئی؟ اہل پاکستان کو مذہبی جنونی ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی گئی ہے؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ نے شکایت کرنے والے کی انگلی میں چمکتا دمکتا چھلا کیوں نہیں دیکھا؟ مسٹر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو باور کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خواہش ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جلد از جلد حل ہوجائے اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ بھارت اس معاملے میں امریکا کی ثالثی قبول کرنے پر تیار ہے۔ مگر بھارتی نیتا اس ثالثی کو تسلیم نہیں کررہے ہیں اور مودی نے بھی چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکا نے ثالثی کا شوشا کیوں چھوڑا؟ اور اس شوشا بازی کا مقصد کیا ہے؟ اس ثالثی کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اہل وطن اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ امریکا پاکستان کے مفاد میں کبھی کوئی فیصلہ پیش کرسکتا ہے۔ آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ امریکا نے بھارتی وزیراعظم کے کاندھے پر بندوق رکھ دی ہے اب وزیراعظم عمران خان کی انگلی پکڑ کر اس کے ٹریگر پر رکھنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یوں بھی خان صاحب انگلی کا اشارہ سمجھنے کے ماہر ہیں۔ ثالثی کے شوشے پر بھارتی نیتا بہت اودھم مچائیں گے اور عمران خان کے طرف دار بھنگڑے ڈالیں گے۔ بالآخر دونوں فریق امریکا کو ثالث تسلیم کرلیں گے اور دونوں ہی امریکا کی ثالثی کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ مقبوضہ کشمیر، آزاد اور بلتستان اور گلگت کا کچھ حصہ بھی شامل کرکے ایک نئی ریاست معرض وجود میں لائی جائے، وہاں قادیانیوں کو مسلمان کہلانے کا حق دے دیا جائے اور پھر کیا ہوگا؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔