آج کچھ درد دل میں سواہوتا ہے

264

1988ء میں ایک ترانہ سلیم ناز بریلی کی آواز میں سنا۔’’ اب کے برس اس طرح منائیں اپنا یوم آزادی‘‘ سب مل کر کشمیر چلیں اوررہبر ہو اپنا قاضی…
پھر جیوے جیوے پاکستان…
آج یہ ترانہ پوری شدت سے یاد آ رہا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
کیونکہ قاضی حسین احمد رہے اور نہ کشمیر… حریت کشمیر کی تحریک‘ بیس کیمپ آزاد کشمیر اور کشمیری مجاہدین کی پشت میں چھرا گھونپنے والے 72 برس پرانے راستے دکھا رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ جائیںگے ۔ عالمی بینک جائیں گے ۔ بین الاقوامی برادری جائیں گے ، اسلامی ممالک جائیں گے ۔ چین جائیں گے ۔یورپ جائیں گے ۔ لیکن72 برس سے یہ معاملہ ان سب کے پاس ہے… کیا کر لیا انہوں نے … مسئلہ ہمارا ہے حل کوئی اور کرے… بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ اب ایک آواز اٹھی ہے تیز رفتارسفارتکاری کرو… یہ بھی اب لکیر پیٹنے کے مترادف ہے یہ وقت تو سفارتکاری کا نہیں راستہ صرف ایک تھا بھارت نے8 لاکھ فوج مسلط کر رکھی ہے ۔ اسے بر داشت کیا گیا بار بار توجہ دلائی گئی کہ بھارت کشمیر میں پنڈتوں کو لا کر بسا رہا ہے آبادی کا تناسب تبدیل کر دے گا ۔ لیکن پاکستان سے کوئی سفارتکاری نہیں ہوئی ۔ پیلٹ گن کا استعمال ہوا کوئی سفارتکاری نہیں ہوئی ،شہریوں پر حملے کیے ، کوئی سفارتکاری نہیں ہوئی ۔ کلسٹر بم استعمال کیے کوئی سفارتکاری نہیں ہوئی ۔ اس کے بعد بھی کچھ بتانے کی ضرورت ہے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا ۔ لیکن نریندر مودی نے یہ بھی بتا دیا کہ اب ہم کشمیر کی آئینی حیثیت کو بدلنے جا رہے ہیں ۔ ہم 370 اور 35 اے کو ختم کر کے کشمیر کو بھارتی علاقہ قرر دے رہے ہیں ۔ اس کے لیے پہلے کلسٹر بم مارے، پھر مزید دس ہزار فوج اتار دی سیاحوں اور ہندو پنڈتوں کو باہر نکال لیا لیکن یہاں سے سفارتکاری شروع نہیں ہوئی ۔ اب جو حالات ہیں انمیں بھی سفارتکاری نہیں چلے گی ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا چلے گا… اب مایوسی چلے گی… اگرچہ مایوسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہے لیکن مسلمان حکمرانوں نے دنیا بھر میں امت کو مایوس کیا ہے ۔ اب صرف یہ امکان ہے اور یہ یقین کی حد تک ممکن ہے کہ کشمیری کوئی ایسی چنگاری بھر دیں کہ پوری تحریک دوبارہ کھڑی ہو جائے ۔ تاریخ کی آنکھوں نے ایسے امکانات کو یقین میں بدلتے کئی بار دیکھا ہے ۔ افغانستان میں تازہ ترین واقعات دومرتبہ ہوئے ہیں۔ ’’ سوویت یونین جہاں جاتا ہے واپس نہیں پلٹتا‘‘ کو کابل یونیورسٹی اور چند کلاشنکوفوں والے طلبہ نے مدارس کے طلبہ سے مل کر بدل دیا ۔ سوویت یونین ایسا پلٹا کہ 6مسلم ریاستیں اس میں سے برآمد ہوئیں ۔ اور وہ روس بن کر محدود ہو گیا ۔ دوسری مرتبہ یہ سمجھا گیا کہ سوویت یونین کی شکست نے دنیا کو واحد سپر پاور امریکا کی غلامی میں دے دیا ہے ۔ اور ایسا ہی ہے لیکن ایک بار پھر مدارس کے طلبہ نے جنہیں طالبان کہا جاتا ہے اس واحد سپر پاور کو بھی شکست دے دی ۔ یہ مایوسی اور نا امیدی سوویت یونین کے قبضے کے وقت بھی تھی لیکن اندر کی چنگاری نے ساری دنیا کو ان کی مدد پر آمادہ کیا ۔ آج امریکا ، سعودی عرب اور پاکستان اس کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں لیکن حقیقت تو اندر کی چنگاری تھی ۔ دوسراموقع سہرا باندھنے والوںکے لیے بھی پیغام ہے ۔ اس مرتبہ تو سعودی عرب ، پاکستان ، امریکا ، روس سب طالبان کے خلاف تھے لیکن امریکا کو صرف رسوائی ملی ۔ کیونکہ چنگاری اندر سے اٹھی تھی ۔ اب بھی بیرونی مدد کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اندر کی چنگاری کشمیر کو آگ بنائے گی ، تو پاکستان کے مفاد پرست حکمران فوراً سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوںگے ۔ نام نہاد اقوام متحدہ مسئلے کا حل خراب کرنے کے لیے آگے آ جائے گی ۔ اسلامی ممالک بھی امداد دینے پر تیار ہو جائیں گے لیکن فی الحال کشمیر میں اندھیرا ہے ۔ دل تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن ۔ سقوط ڈھاکا سے کم نہیں ہے ۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے کی موجودگی میں بھی کشمیر عملاً بھارت کے قبضے میں تھا وہ اب بھی ہے ۔ مسلمان دفعہ 35 اے کی منسوخی سے پہلے بھی محفوظ نہیں تھے اور اب بھی غیر محفوظ ہیں ۔
اب پاکستان کے ڈر پوک حکمرانوں کو سفارتی مہم ہی چلانی چاہیے وہ اس سے زیادہ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لیکن ۔ خوفزدہ لوگ سفارتی مہم بھی کیسے چلائیں گے ۔ یہ تو بھارتی قبضے پر بھی راضی ہو جائیں گے ۔ جن لوگوں کی صلاحیت کا یہ عالم ہو کہ ایک دن قبل بھی انہیں اس امر کا اندازہ نہیں تھا کہ بھارت کشمیر پر قبضہ کرنے والا ہے پوری قومی سلامتی کونسل بیٹھی تھی اور اسے اندازہ نہیں تھا ک بھارت اگلے دن کیا کرنے والا ہے تو پھر ایسے حکمرانوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔حیرت انگیز امر تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو یہ توقع نہیں تھی کہ ایسے لوگ ملک کے معاملات پر متمکن ہیں جنہیں سامنے کی چیزیں نظر نہیں آ رہیں ۔ بھارتی گلو کار میکا سنگھ کو کس نے ویزے دے دیے ۔ کسی نے سوال کیا ہے کہ مودی کا یار تو جیل میں ہے میکا سنگھ کے طائفے کو کس نے ویزے دے دیے ۔
خیر یہ سوال کرنے کی تو کسی میں ہمت نہیں لیکن ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ بھارت 24 گھنٹے میں اتنا بڑا اقدام کر دے گا تو اس وقت انہیں اپنے سائنسداں وزیر فواد چودھری سے تو پوچھنا چاہیے تھا اسے تو سب معلوم ہے سائنسدان جو ہے… اس سے یہ بھی پوچھ لیں کہ کشمیر کب آزاد ہوگا ۔