اس بار پاکستان کا پہلا انوکھا یوم آزادی تھا جو ایک آزاد قوم نے ایک غلام اور بے بس قوم کی نذر اور نام کر دیا۔ وہ لوگ جنہیں تقسیم برصغیر کے اصول کے عین مطابق آج اس جشن میں شریک اور شامل ہونا چاہیے تھا مگر انگریز اور کانگریس کی ملی بھگت نے دونوں کو باہم جدا رکھ کر ایک طویل اور المناک داستان کا پیش لفظ لکھ دیا۔ یوں بہتر سال اس جدائی اور دوری کی قیمت ادا کرتے گزر گئے۔ صرف پاکستان ہی نہیں خود بھارت بھی اپنی جارحیت کی قیمت چکا رہا ہے۔ کشمیر کی چنگاری راکھ میں دبی ہوئی ہے اور جب بھی دونوں ملک دوستی کا تاج محل تعمیر کرنے کی طرف لپکتے ہیں یہ چنگاری شعلہ بن کر سارے راج محل اور تاج محل جلا ڈالتی ہے اور یوں باقی خواہشات کی راکھ ہی بچ جاتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ گمان غالب تھا کہ سخت گیر ہندو لابی کی حمایت کے پیش نظر مودی بڑا آدمی بن کر اپنی طاقت کو جنوبی ایشیا کو تاریخ کی قید سے آزاد کرنے کے لیے استعمال کرے گا اور یوں جنوبی ایشیا خوف اور دہشت وغیر یقینی کے سایوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوجائے گا اور دونوں ملک ترقی کی راہوں پر آزادانہ اور تیز رفتار سفر کریں گے۔ بیت الخلا سے محروم بھارت کے باشندوں کو یہ سہولت ملے گی اور خط غربت سے نیچے ’’سلم ڈوک‘‘ جیسی زندگی گزارنے والے بھارت کے کروڑوں باشندوں کی دنیا میں روشنی اور بہتری کی کرنیں پھوٹیں گی۔ اس کا کیا کیجیے مودی ایک چائے والا ہی ثابت ہوا۔ چائے والا ہوتے ہوئے تو شاید اس کی ذہنیت اتنی تنگ نہ ہوتی کہ مسلمان اور دلت گاہکوں کو بھی وہ چائے پیش کر رہا ہوتا مگر وزیر اعظم بن کر طاقت کے سفر میں تو وہ مزید تنگ نظر اور متعصب ہوگیا یہاں تک پارٹی کے سیکڑوں ٹکٹوں میں سے ایک بھی کسی مسلمان کو نہ دیا جا سکا۔ اب مودی کی تنگ سوچ اور پست ذہنیت نے اسے کشمیر پر شب خوں مارنے پر مجبور کیا اور یوں دوستی اور اچھے تعلق کے سارے خواب کرچی کرچی ہو کررہ گئے۔
پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ پاکستان نے اپنا یوم آزادی مقبوضہ جموں وکشمیر کے ان محصور عوام کے نام کیا جو گزشتہ دس بارہ روز سے ایک قید ی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ آزاد دنیا سے رابطے کی ہر سہولت ان سے چھین لی گئی ہے اور حد تو یہ عید کے روز بھی وہ گھروں میں مقید رہے اور انہیں عید گاہوں اور کھلے مقامات پر عید کی نماز ادا نہ کر نے دی گئی۔ عید الاضحیٰ بھی پاکستان کے لیڈروں نے کشمیریوں کے نام کی۔ سراج الحق عید سے دو روز پہلے مظفرآباد میں یکجہتی کا اظہار کر گئے تھے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول زرداری، مسلم لیگ ن کے اقبال ظفر جھگڑا عید کے دن مظفر آباد میں رہے اور وزیر اعظم عمران خان چودہ اگست کو خود مظفر آباد پہنچے۔ آج کشمیر کے حالات کے تناظر میں اس تاریخ کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جس نے ہندو مسلم اتحاد کے داعی محمد علی جناح کو مسلمانوں کا قائد اعظم بن کر الگ وطن کے قیام کے مطالبے پر مجبور کیا۔ یہ ماحول اور کیفیت آج بھی موجود ہے کیونکہ وہ ذہنیت پہلے سے زیادہ برہنہ اور سفاک بن کر آج بھی زیادہ مضبوط اور توانا ہو چکی ہے۔ بہتر سال قوموں کی زندگی میں زیادہ بڑا عرصہ نہیں ہوتا مگر قوموں کی ترقی اور خوش حالی کی سمت متعین کرنے کے لیے یہ عرصہ کافی ہوتا ہے۔
پاکستان دنیا کے نقشے پر نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی واحد ریاست تھی۔ اس لحاظ سے یہ خطے میں مسلم برصغیر کا نمائندہ ہے۔ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ مسلمان حکمرانوں نے راجواڑوں پر مشتمل اس منتشر اور منقسم معاشرے کو مرکزیت عطا کی۔ نئی اور جدید تہذیب سے آشنا کیا۔ عربی، ایرانی اور افغانی تہذیبوں نے چھوت چھات اور ذات پات پر مبنی ہندو معاشرے کو جدتوں اور تنوع سے آشنا کیا۔ مسلم صوفیاء نے اس خطے کے راندہ درگاہ عوام کو شرف انسانیت سے آشنا کیا۔ جن طبقات کے وابستگان کو کوئی قریب نہیں پھٹکنے دیتا تھا مسلم صوفیاء نے انہیں اپنے برابر بٹھایا، اپنے دسترخوان پر شریک کیا اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا اور یوں دلوں کی تسخیر ہوتی گئی یہی وجہ ہے کہ جب برصغیر پر مسلمانوں کا طویل اقتدار انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوا تو مسلم تہذیب یہاں بدستور قائم رہی اور پھلتی پھولتی رہی۔ اگر یہ تہذیب محض اقتدار اور طاقت کے زور پر پھیلی ہوتی تو انگریز کے ڈھائی سو سالہ دور میں اس کا وجود ختم ہوچکا ہوتا۔ انگریزی راج کا سورج جب عالمی سطح پر غروب ہونے لگا تو برصغیر پر لہراتا یونین جیک اتارنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ اس دوران برصغیر کے بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں مسلمان اکثریت حاصل کر چکے تھے۔ انگریز کے جانے کے بعد آبادیوں کے درمیان توازن کیسے رکھا جانا ہے اور ہندوستان کو متحد رکھنے اور کاروبار حکومت چلانے کے لیے کون سا نظام تشکیل دیا جانا ہے؟ یہ انگریز، ہندو اور مسلمان قیادت تینوں کو درپیش ایک اہم سوال تھا۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت اور انگریز نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا۔ مسلمان قیادت اپنے تشخص اور ثقافت کی بنیاد پر اپنے لیے کچھ ضمانتیں اور مراعات چاہتی تھی۔ ہندو قیادت مسلمانوں کو الگ شناخت دینے اور تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ جس سے مذاکرات ٹوٹتے جڑتے رہے۔ رفتہ رفتہ کانگریسی قیادت کے رویے سے مایوس ہو کر مسلم لیگ کی قیادت الگ وطن کے نکتے پر متفق ہوتی چلی گئی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی امیدیں ختم ہوگئیں تو مسلم لیگ مطالبہ پاکستان کے ساتھ سامنے آگئی۔ یہ جنگ قانون، آئین، دلیل اور ووٹ کے ذریعے آگے بڑھتی چلی گئی اور آخر کار چودہ اگست کو دنیا میں نظریے کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے قیام پر منتج ہوئی۔
کانگریسی قیادت نے پاکستان کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان چند سال اپنا وجود برقرار رکھنے کے بعد پکے ہوئے پھل کی مانند دوبارہ ان کی جھولی میں آن گرے گا۔ اسی لیے کانگریسی قیادت نے کشمیر جیسی مسلمان اکثریتی ریاست کو ہتھیانے کی کوشش کی۔ بھارتی قیادت کا یہ خواب محض سراب ہی ثابت ہوا۔ پاکستان مشکلات کے باجود شاہراہ ترقی پر گامزن ہوگیا۔ بھارت نے کشمیر کا مسئلہ اُلجھا کر خطے کے امن کی بنیاد میں ٹائم بم رکھ چھوڑا۔ یہ ٹائم بم وقتاً فوقتاً جنگوں کی صورت میں پھٹنے لگا۔ پاکستان کی قیادت نے یہ طے کر لیا کہ اب جبکہ ایک ملک حاصل کر لیا گیا ہے اسے بھارت کی دستبرد سے بچانا اور زمانے کے سرد وگرم سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس کوشش میں پاکستانی اداروں سے غلطیاں بھی ہوئیں۔ اس کے حکمرانوں سے حماقتیں بھی سرزد ہوئیں مگر دشمن کی سازشیں بھی جاری رہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کا ہمسایہ نہ بن سکا بلکہ روز اول کی طرح دشمن ہی رہا۔ بھارت کا یہ کردار اب تک جاری ہے۔ بھارت کی آتش ِ انتقام مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے بعد بھی سرد نہیں ہوئی۔ بھارت نے کشمیر پر اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے طاقت حیلہ جوئی اور مکر وفریب کا ہر حربہ اختیار کیا مگر وہ بہترسال کے باوجود بھی وادی کشمیر کی دہلیز پر تہی دست وتہی دامن کھڑا ہے۔ وہ جن کشمیریوں کو ’’اپنے لوگ‘‘ قرار دے کر مسئلے کی شدت اور سنگینی کو کم کر رہا ہے وہ کشمیری بھارت کے اس دعوے کو جھٹلانے کے لیے اپنا تن من دھن وار رہے ہیں۔