اقوام متحدہ کا خصوصی اجلاس۔ 50برس بعد کشمیر ایک بار پھر سلامتی کو نسل کی زینت۔ دنیا کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب۔ نصف صدی بعد اہل کشمیر کی آواز دنیا کے سب سے بڑے فورم پر۔ ایک بڑی سفارتی کامیابی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی یوم سیاہ کو خصوصی کوریج۔ ایک اور بڑی کامیابی۔ کیا عالمی برادری اور سلامتی کونسل بھارت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کرسکی؟ اس سے بھی اہم یہ کہ کیا اجلاس میں بھارت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوئی کوشش کی گئی۔ بھارت سے کشمیریوں پر ظلم وستم بند کرنے کی کوئی ’’درخواست‘‘ کی گئی؟ مسئلہ کشمیر پر تشویش کا اظہار اور کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ یہ ہے وہ عظیم کامیابی جس کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ اس بوسیدہ نظام اور ورلڈ آڈر سے ایسے ہی فیصلے ممکن ہیں۔ مسلمانوں کے حق میں کوئی حتمی فیصلہ اور دبائوجو ان کی کامیابی پر منتج ہو! ناممکن
ہم کشمیر کا مقدمہ پہلے بھی سلامتی کونسل میں لڑ چکے ہیں۔ نہایت کامیابی سے۔ اقوام متحدہ نے ایک ’’پاک بھارت کمیشن‘‘ بھی تشکیل دیا تھا۔ تب پاکستان عالمی برادری میں ایک محترم مقام پر فائز تھا۔ روسی اور مغربی بلاک دونوں پاکستان سے دوستی کے خواہاں تھے۔ ہم اسلامی بم کے حوالے سے بدنام تھے اور نہ دہشت گردی کی اعانت کا لیبل ہم پر چسپاں تھا۔ جہادی تنظیمیں بھی ہمارا حوالہ نہیں تھیں۔ ہماری معیشت کمزور تھی اور نہ ہماری فوج کرائے کی فوج باور کی جاتی تھی۔ ہمیں روگ اسٹیٹ کا خطاب بھی نہیں دیا گیا تھا۔ پاکستان کی حیثیت ایک بااصول ملک کی سی تھی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہمارے حق میں اور بھارت کے خلاف تھیں۔ ان قراردادوں کو آج بھی ہم سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمیں ملاکیا؟
آج بھارت ایک مضبوط معیشت کا نام ہے۔ ایک بڑا بازار۔ سپر طاقتوں سے لے کر امت مسلمہ کے اما موں تک سب کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ جس عالمی برادری کو ہم دن رات پکار رہے ہیں وہ بھارت کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہے۔ بھارت کی تخریبی کاروائیوں پر بھی دنیا پیٹھ موڑے کھڑی رہتی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں ہم ایک کمزور معیشت ہیں جسے عمران باجوہ حکومت نے ذلت کی انتہائی پستیوں میں لا کھڑا کیا ہے۔ ہماری حیثیت ایک بین الاقوامی بھکاری کی ہے جو اس مقام تک آپہنچا ہے کہ امارات اور قطر کی ڈرائیوری کررہا ہے۔ کوئی ایک مثال موجود ہے جب عالمی برادری نے کسی کمزور اسلامی ملک کی بھارت جیسی منی سپر پاور کے مقابلے میں مدد کی ہو۔ اقوام متحدہ کسی ایسے ملک کا سہارا بنی ہو۔ ویٹو پاورز رکھنے والے ممالک، چین کو چھوڑ کر سب بھارت کے ساتھ ہیں۔ سلامتی کونسل کی حالیہ سرگرمی چین کی مرہون منت ہے جو بھارتی اقدام کو لداخ کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ اس منتقم مزاج حکومت نے چین سے بھی دوریاں پیدا کرلی ہیں کیونکہ پاک چین دوستی اور سی پیک کے حوالے سے نواز شریف کا روشن امیج تصور میں ابھرتا ہے۔ پھر امریکا کو بھی سی پیک گوارا نہیں تھا۔
مودی کا مقبوضہ کشمیر ضم کرنے کے بعد حکومت کا ابتدائی موقف یہ سامنے آیا ’’کیا میں انڈیا سے جنگ کروں؟ اگر جنگ ہار گیا تو؟‘‘ عمران خان کے اس موقف کی تائید میں جنرل (ر) شعیب امجد نے کہا ’’سمجھا کریں، مجبوریاں ہیں ہم انڈیا سے جنگ نہیں لڑسکتے‘‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ’’انڈیا سے جنگ خودکشی ہوگی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم احمقوں کی جنت میں نہ رہے‘‘۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے فرمایا ’’فوجی کاروائی زیر غور نہیں مگر کشمیریوں کے لیے خون کا آخری قطرہ بہانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے‘‘۔ یہ موقف بھارت کو رعا یت دینے اور مجاہدین کشمیر سے غداری کے مترادف ہے۔ پاکستان میں کہیں بھی اس موقف کی پزیرائی نہیں کی گئی بلکہ اسے بزدلی اور نامردی سے تعبیر کیا گیا۔ تب اس موقف کو اسلام سے ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ آرمی چیف فرماتے ہیں ’’اسلام امن کا مذ ہب ہے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ یہ ہے کہ ’’مسلمان کبھی جنگ میں پہل نہیں کرتا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کے خلاف کرتا ہے۔ ایگریسو وار (جارحانہ جنگ) اسلام کے خلاف ہے‘‘۔
یہ درست ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ امن متمدن زندگی کی علامت اور ضرورت ہے۔ اسلام اپنے قوانین اور تعلیمات سے امن کا وہ ماحول تخلیق کرتا ہے کہ ایک عورت قادسیہ سے صنعا تک تنہا سفر کرتی ہے لیکن اس کے جان ومال کی طرف نظر کرنے کی بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔ انسانی جان کا جیسا احترام اسلام میں پایا جاتا ہے دنیا کے کسی مذہب کی تعلیمات میں اس پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔ ایک انسان کا قتل انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ انسانی جان کعبے سے زیادہ محترم ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں متعدد آیات ہیں، احادیث میں کثرت سے ارشادات منقول ہیں جن میں بے گناہ کے خون کو بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی انسان کا یہ حق اس وقت تک قابل تسلیم ہے جب تک اس نے کسی دوسری جان کو قتل نہیں کیا، زمین پر فتنہ اور فساد نہیں پھیلایا۔ جیسے ہی کسی شخص نے ان جرائم کا ارتکاب کیا اس کی جان کی حرمت کا حق کالعدم ہوجاتا ہے۔ وہ اس حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس کا جوابی قتل اور موت ہی انسانیت کی بقا کی ضمانت بن جاتی ہے۔ چاہے یہ کوئی فرد ہو یا قوم اس کینسر زدہ حصے کو انسانیت کے جسم سے کاٹ کر پھینک دینا لازم ہوجاتا ہے۔ اس
ناگزیر خونریزی سے اجتناب خود کشی کے مترادف ہوتا ہے۔ ظالم کو ظلم سے روکنا بے رحمی اور قساوت نہیں عین انسانیت ہے۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے: اگر تم حق کے پیرو کاروں کی مدد نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ (انفال: 73)
جہاں تک وزیراعظم کے اس قول کا تعلق ہے کہ مسلمان کبھی جنگ میں پہل نہیں کرتا اور جارحانہ جنگ اسلام کے خلاف ہے۔ اسلام تحمل اور برداشت کا مذہب ہے لیکن اس وقت تک جب تک کوئی اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش نہ کرے، ان کے انسانی حقوق غصب نہ کرے، ان پر ظلم وستم نہ ڈھائے، ان کے گھر بار نہ چھینے، ان کے ایمان، ضمیر اور آزادی پر پابندیاں نہ لگائے، انہیں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے سے نہ روکے اور ان کی اجتماعی زندگی کے نظم کو درہم برہم نہ کرے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو پھر مسلمانوں کو حکم ہے کہ آگے بڑھیں اور پوری طاقت سے اس ظلم کا خاتمہ کردیں۔ اگر کوئی طاقت اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہو، ان پر حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ سب کام چھوڑ کر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کے مقابلے کے لیے نکلیں۔ مسلمان اپنی آزادی کھودیں اسلام کو یہ کسی طور گوارا نہیں۔ یہ فرض صرف اس شہر یا ملک کے رہنے والوں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ اس زمین پر رہنے والے تمام مسلمانوں پر بھی اسی طرح لازم ہوجاتا ہے جیسے نماز اور روزہ کہ انہیں ترک کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ بلکہ اس کی فضیلت نماز اور روزے سے بھی زیادہ ہے۔
اسلام نے مسلمانوں کے سامنے صرف دو راستے متعین کیے ہیں۔ موت یا عزت۔ ذلت اور بے شرف زندگی کی مسلمان کی زندگی میں گنجائش نہیں۔ ’’اگر جنگ ہارگیا تو‘‘ اس بزدلی اورکم ہمتی کی اسلام میں جگہ نہیں۔ اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر اللہ کے قہر کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ قرآن مبین میں اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر باطل سے دبنے والوں کو اپنے اوپر ظلم کرنے والا کہا گیا ہے۔