حال ہی میں دنیا کے مسلمانوں کی طرح پاکستانی مسلمان بھی سنت ابراہیمی کے فریضے کی ادائیگی سے فارغ ہوئے ہیں لیکن اس مرتبہ عید قربان کے موقع پر دوسرے شہروں کی طرح کراچی میں بھی عید سے کئی دن پہلے سے جو موسلادھار بارش ہوتی رہی سڑکوں اور گلیوں میں پانی بھر گیا اور وہ تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔ نو تعمیر شدہ سڑکیں غیر معیاری میٹریل کی وجہ سے بیٹھ گئیں اور اُن میں گڑھے پڑ گئے جس سے آمدورفت اور جانوروں کی ٹرانسپورٹ بہت مشکل ہوگئی۔ اس اذیت اور تکلیف کو بڑھانے میں کے الیکٹرک نے پورا پورا موسم کا ساتھ دیا، گھنٹوں گھنٹوں اور بعض جگہ کئی کئی دن بجلی غائب رہی۔ گلیوں میں پانی جمع ہو، اور گھپ اندھیرا ہو تو ایسے میں آنا جانا کتنا مشکل ہوگا اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو ان حالات سے گزرے ہوں۔ کے الیکٹرک کے تار گرنے اور کرنٹ لگنے سے کراچی کے 30 لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور بہت سے قربانی کے جانور بھی کرنٹ لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مرکزی مویشی منڈی میں جو سپر ہائی وے پر قائم ہے بارش کا پانی بھر گیا اور بیوپاریوں کو جانوروں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ چناں چہ ان میں سے کچھ نے اونے پونے جانوروں کو فروخت کرکے اپنے گھروں کی راہ لی اور بہت سے جانوروں کو واپس لے گئے۔ اس طرح منڈی بقر عید کے تین روز گزرنے سے پہلے ہی خالی ہوچکی تھی۔ اس سال ملک میں معاشی حالات کی خرابی اور غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے مجموعی طور پر بازارا ٹھنڈا رہا، پچھلے سال عید قربان کے موقع پر پاکستانی عوام نے ساڑھے تین سو ارب روپے کے اخراجات کیے تھے جب کہ اسی سال یہ معاملہ دو سو ارب روپے تک پہنچ سکا۔
عید قربان کے چند دن بعد ہی پی ٹی آئی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر حکومتی وزرا اور مشیران کرام نے بیانات دینے شروع کردیے کہ جب ہم آئے تو معیشت وینٹی لیٹر پر تھی ہم نے اسے پائوں پر کھڑا کردیا ہے۔ کسی نے کہا کہ پہلا سال استحکام کے لیے تھا دوسرا سال تعمیر کا ہوگا۔ پاکستان بہت جلد ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہوگا، ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح ایک فلاحی ریاست بنا کر دم لیں گے۔ لیکن دعوے کرنے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ ایک سال میں بجلی، سوئی گیس، ایل این جی، پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے باعث اور سیلز ٹیکس نافذ ہونے کے بعد گھریلو استعمال کی تمام ہی اشیا میں دس سے پندرہ فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈالر جو پچھلے اگست میں 123 روپے کا تھا اب 158 روپے کا ہے۔ اس وجہ سے درآمدی اشیا مہنگی ہوگئی ہیں، بڑے پیمانے کی صنعتیں (LSM) کی پیداوار میں 3.6 فی صد کمی ہوئی ہے، جب کہ اس میں اضافے کا ہدف 6 فی صد ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری (FDI) میں 60 فی صد کمی واقع ہوگئی، بلند شرح سود جو اس وقت 13.25 فی صد ہے اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے اور پیداواری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ رواں مالی سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 3.6 فی صد رکھا گیا ہے جو پورا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ زرعی شعبہ زوال کا شکار ہے، کھاد کو مزید مہنگا کردیا گیا، کاشتکار کس طرح کاشتکاری کرے گا، زرعی شعبے میں لائیو اسٹاک کا اہم حصہ ہے جس کا پوری معیشت میں 11 فی صد حصہ ہے۔ اس مرتبہ بقر عید کے موقع پر اس شعبہ کے بیوپاریوں کو ایک جھٹکا لگا ہے۔ دیکھیں اس کا اگلے سال کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ کپاس کے لیے حکومت نے رواں سال کے لیے 15 لاکھ گانٹھوں کا ہدف رکھا ہے جو زرعی ماہرین کے مطابق پورا ہونا مشکل ہے۔
حکومت جن باتوں پر خوشیاں منارہی ہے اُن میں ایک تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ (CAD) میں کمی ہے۔ دوسرے ٹیکس گوشواروں میں اضافہ ہے۔ جہاں تک کرنٹ اکائونٹ کے خسارے میں کمی کا معاملہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ درآمدات پر بہت بھاری ٹیکس لگادیے ہیں اس سے درآمدات میں کمی ہوئی ہے جو 6.3 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ اس سے پاکستانی معیشت میں ڈالر پر دبائو کم ہوا ہے اور اس کا ایکسچینج ریٹ مستحکم ہوگا۔ لیکن درآمدات مہنگی ہونے سے خام مال بھی مہنگا ہوجائے گا۔ اس کا اثر تمام مصنوعات پر ہوگا، عام طور پر اسی خسارے کو برآمدات میں اضافے سے پورا کیا جاتا ہے اس میں حکومت کو خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی، اب مشیر تجارت عبدالرزاق دائود صاحب برآمدات میں اضافہ کرنے کی پلاننگ کررہے ہیں۔ اصل میں اس خسارے میں کمی کی قیمت مجموعی معیشت کی سست روی ہے جو ایک مہنگا سودا ہے جس کا بالآخر نتیجہ بے روزگاری ہے۔
حکومت کا دوسرا اہم کام ٹیکس گوشواروں میں تقریباً 10 لاکھ کا اضافہ ہونا ہے، اتنا بڑا اضافہ اس سے پہلے ایک سال میں نہیں ہوا۔ مزید ایک لاکھ بڑے ٹیکس نادہندگان کو نوٹس دیے جارہے ہیں، اس وقت بھی سب سے بڑا چیلنج چھوٹے اور درمیانے دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے جن کی روزانہ کی سیل لاکھ روپے سے اوپر ہے۔ جو ابھی تک مزاحمت کررہے ہیں اگر یہ تمام ریٹیلرز اور ہول سیلرز ٹیکس کے دائرے میں آجاتے ہیں اور فکسڈ شرح سے ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔